کو عام کریں ۔ حضرت پرتاپگڈھی علیہ الرحمہ کے متعلق تحریر آپ کو پسندآئی(۲) بہت اطمینان حاصل ہوا، آپ کی نگاہ قبول انشاء اللہ اس میں برکت و قبولیت پیدا کرے گی۔ آج کل محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی پر کچھ کام کر رہا ہوں ۔ حضرت محدث کبیر نور اللہ مرقدہ اپنے علم و فضل ، ذہانت و ذکاوت میں اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی تھے ۔ ہم لوگوں نے زندگی میں انہیں بالکل نہیں پہچانا ۔ انتقال کے بعد جب ان کی علمی تحریریں پڑھنی شروع کیں تو ایسا محسوس ہوا کہ متقدمین محدثین میں سے کوئی بزرگ اس دور میں آگئے تھے ۔ ایک طویل مضمون حضرت مولانا پر لکھ چکا ہوں جو جامعہ اسلامیہ بنارس کے سہ ماہی رسالہ ترجمان الاسلام کے خاص نمبر میں شائع ہوگا ۔ انشاء اللہ اس کی ایک کاپی بھیجوں گا۔ دارالعلوم دیوبند سے ایک رسالہ ’’دارالعلوم‘‘ نام کا نکلتا ہے ۔ اس کے ایڈیٹر نے اس کا تصوف نمبر نکالنے کا ارادہ کیا ہے۔ مجھ سے مضمون کی فرمائش کی ، میں نے اس کے لئے ایک مضمون صحیح تصوف کے تعارف کے لئے لکھا ہے۔ آج اسے بھیج رہا ہوں (۳) دعا فرمادیں کہ اللہ تعالیٰ ان تحریروں کو قبول فرمائیں اور میرے لئے بھی اور مطالعہ کرنے والوں کے لئے بھی نافع اور مفید بنائیں ، قبول نہ ہوتو صرف کالی کالی سطریں کس کام کی مجھے اس موقعہ پر حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب امرتسری قدس سرہ (۴) کا ایک قول یاد آتا ہے ان کے یہاں ایک مرتبہ حضرت مولانا عبدالباری صاحب ندوی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لے گئے ، مفتی صاحب قبلہ مدرسہ کی لق ودق عمارتیں بنوا رہے تھے اس کے علاوہ مسجد و مدرسہ کی بہت سی عمارتیں وجود میں آچکی تھیں ۔ مولانا ندوی نے واپسی کے بعد حضرت مفتی صاحب کو اور باتوں کے ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ حضرت! سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی عمارت کا کیا حاصل ؟ اس وقت مولانا ندوی دھڑا دھڑ کتابیں لکھ لکھ کرچھپوا