انھیں کیا قباحت محسو س ہوئی۔
پورے فلسفہ پر غور کرنے سے اور خود ان کی تصریحات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ گروہ حقیقت کی تلاش میں عقل کے گھوڑے پر سوار ہوکر چلا ہے ، عقل ہی کو یہ طائفہ معیار حق وصواب سمجھتا ہے ، جو کچھ عقل انسانی تسلیم کرے وہ مسلّم، اور جسے رد کردے یا اس کے دائرۂ فہم سے باہر ہو، وہ ناقابل تسلیم اور محال عقلی !
حسامی کا آخری سبق جو تم لوگوں نے پڑھا تھا ، اس میں یہ عبارت ہے ، فقالت المعتزلۃ: العقل علۃ موجبۃ لمااستحسنہ ، محرمۃ لما استقبحہ علی القطع والبتات فوق العلل الشرعیۃ فلم یجوزوا أن یثبت بدلیل الشرع مالایدرکہ العقل أو یقبحہ، خط کشیدہ جملہ اصلاً معتزلہ کی آوا ز نہیں ہے ، معتزلہ تو ناقل ہیں ، یہ آواز در حقیقت فلاسفہ کی ہے ، ہاں بعد والی عبارت معتزلہ نے بڑھائی ہے ، فلاسفہ کواس کو ضرورت نہ تھی ، غرض اس گروہ کا سفر عقل کے سہارے ہوتا ہے، جہاں تک چل کر عقل تھک کر درماندہ ہوجاتی ہے ، اس کے آگے داناؤں کا یہ گروہ راستہ ہونے ہی کا انکار کردیتا ہے ،ظاہر ہے کہ جب ان کے نزدیک اصل معیار عقل ہے ، تو ان کے لئے ضروری ہوا کہ چند عقلی مفروضے گھڑیں ، اورانھیں مفروضات عقلیہ پر پوری کائنات کی توجیہ کریں ، فلسفہ کی کوئی کتاب … خواہ طبعیات کی ہو،خواہ الٰہیات کی … اٹھا لو، اور دیکھ لو کہ یہ ٹولہ عقلی تانے بانے تننے میں مشغول ہے، پھر خود ہی ایک ایک تار کو توڑتا ہے ، ان لوگوں کا کوئی عقلی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس پر اسی گروہ کے دوسرے فرد نے اسی عقل کے تیشے سے حملہ نہ کیا ہو، اس گروہ کے حق میں حضرت حق جل مجدہٗ کا یہ ارشاد خوب صادق آتا ہے : وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثاً۔