نہیں جانا چاہئے ۔
بس بھائی !بات ابھی باقی ہے ، مگر تھک بھی گیا ہوں اور وقت بھی ختم ہوگیا ، اس وقت اتنے ہی پر اکتفا کرتا ہوں ، پھر اگر اﷲ نے توفیق دی تو موضوع کے دوسرے جزء یعنی انکارِ صفات کی مضرتوں پر گفتگو ہوگی، گوکہ اس کا ایک حصہ اس مکتوب میں بھی آگیا ہے۔
باقی یہاں سب خیریت ہے ، آج کل میرے اوپر کتابوں کا انبار ہے ، صحت وعافیت کی دعا کرو۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۴؍جمادی الاخریٰ ۱۴۰۶ھ
٭٭٭٭٭
عزیزم السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
مسئلۂ صفات پر گفتگوآخری مرحلہ میں آچکی ہے ، کئی روز سے سوچ رہا تھا کہ بقیہ بھی لکھ کر چھٹی کروں ، مگر فرصت تحریر عنقا ہے، اور مسئلہ دقیق بھی ہے اور طویل بھی ، متعدد مجالس میں لکھنے کی عادت نہیں اور طویل مجلس ملتی نہیں ، اس لئے دیر ہوتی جارہی ہے، آج بنام خدا قلم اٹھاتاہوں ، حق تعالیٰ شانہ بخیر وخوبی پورا کرنے کی توفیق دیں ۔
گفتگو اس پر کرنی ہے کہ انکار صفات اور اس کے متعلقات کی راہ سے کیا نقصانات اور خرابیاں پیدا ہوئیں ، اور کیا احتمالات ہیں ؟ اس مسئلہ میں گفتگو فلاسفہ سے شروع ہوگی اور معتزلہ تک پہونچے گی ، کیونکہ انکار صفات کے مسئلہ میں پیش رو یہی فلاسفہ ہیں ، معتزلہ بے چارے تو انھیں کے مقلد نادان اورطفیلی ٔ دسترخوان ہیں ، پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ انکار صفات پر کس لئے مجبور ہوئے ، صفات کو تسلیم کرنے میں