ہے جو ہر قیاس وگمان سے بالاتر ہے ، ائمہ کرام نے اس حقیقت کو خوب سمجھا تھا ، امام مالک سے کسی نے سوال کیا کہ :
کیف استوی؟ فاطرق مالک راسہ حتیٰ علاہ الرحضاء ثم قال: الاستواء غیر مجھول والکیف غیر معقول والایمان بہ واجب والسوال عنہ بدعۃ وما أراک إلا مبتدعاً، ثم أٔمر بہ أن یخرج ۔
دیکھتے ہو!أعلم أھل المدینۃ نے جومعاملہ اس شخص کے ساتھ کیا ، وہی مناسب تھا ، اور بعد والوں کے لئے بھی وہی مناسب تھا ، اب سوچو جو حضرات استواء کے معنی استیلاء کے بتاتے ہیں ، چند غرائب لغت کا سہارا لے کر! ان کے پاس اس معنی کے تیقن کی کیا دلیل ہے ، اگر یہی معنی ہے تو سلف سے منقول کیوں نہیں ہے ، لوگ کہتے ہیں کہ فلسفہ زدہ ذہنیت کی تسکین اسی طرح کی تاویلات میں تھی ، یہ عذر بارد ہے ، مان لیا کہ تھوڑی دیر کے لئے ایک فلسفہ زدہ کو تسکین ہوگئی ، لیکن بہت سے دوسرے لوگوں کے لئے دوسری نصوص میں جو شکوک وشبہات کا دروازہ کھل گیا ، اس کے بند کرنے کا کیا سامان ہوگا ، نہیں نہیں ۔ مرض کا علاج دوا سے چاہئے ، مرض سے نہیں ، دوا یہ ہے کہ حد ادراک سے آگے بڑھنے سے انھیں روک دیا جاتا، آخر جناب نبی کریم ا نے من خلق اﷲ کے جواب میں صرف فلینتہ کیوں فرمایا ؟اس سے کیا سمجھ میں آتا ہے ؟ تاویل کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے،حالانکہ یہ یقینی امر ہے کہ نہیں جانتے ، پھر کیا ضرورت ہے کہ ایسا دعویٰ کیا جائے جو پشت کا بار بن جائے ، خدا ورسول نے جس کو مبہم چھوڑدیا ہے اس کی تحقیق وکرید میں ہم کیوں پڑیں ، اتباع متشابہات سے قرآن میں منع فرمایا گیا ہے ، ابہام سے ہمارا کچھ نقصان نہیں فائدہ ہی فائدہ ہے، ہم کو اس سے فائدہ اٹھاکر راہ نجات ہموار کرنی چاہئے ، ادھر ادھر