کی وجہ سے کم آتی ہے۔ یوں قلب کو بارگاہ الٰہی میں حاضر رکھنے کا اہتمام کرتا ہوں ۔ مگر وہ بات کہ دل بھی اسی دربار میں ہو۔ زبان بھی، اور پوراجسم بھی ، وہیں حاضر رہے۔اب نصیب نہیں ہوپاتی تو عجیب حسرت ہوتی ہے۔ لیکن یہ سوچ کر تسلی ہوتی ہے کہ یہ مشغولیت میں نے نہ خود سے اوڑھی ہے، اور نہ میں نے اس کا کبھی تصورکیا تھا۔میں تو محض ایک مدرس تھا ، اور مدرسی میں خوب وقت ملتا تھا ، ذکر کرنے کا ، تلاوت کرنے کا ، مگر اس کے بعد بزرگوں کی طرف سے وعظ وتقریر کی ذمہ داری ڈالی گئی، جس کو مجبوراً مجھے قبول کرنا پڑا، ورنہ میں بالکل سچ عرض کرتا ہوں کہ مجھے تقریرووعظ سے بہت گھبراہٹ ہوتی تھی اور اب بھی ہوتی ہے۔وعظ سے پہلے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ہر قسم کے علم سے بالکل کورا ہوں ۔ اس لئے اور گھبراہٹ ہوتی ہے، اس مشغولیت نے بہت سارا وقت لیا۔ اس کے بعداچانک تحریروتصنیف کا مشغلہ میرے پیچھے لگ گیا اور اب اس میں اس طرح مبتلا ہوں کہ بیشتر اوقات اس میں گھر گئے ہیں ، مگر اطمینان اس سے ہوتا ہے کہ اپنے بزرگ حضرات کی جن میں جناب والا بھی شامل ہیں سرپرستی حاصل ہے ، اور یہ لوگ اس سے راضی ہیں ۔ اور مجھے امید ہے کہ ان حضرات کے طفیل انشاء اللہ ،اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہوجائیگی۔ اس داستان سرائی کا مقصود یہ ہے کہ آپ کی گرانقدر توجہ مزید اپنے حال زار پر مبذول کراوں ۔ یوں تو آپ کی دعاء عنایت اور توجہ برابر اس غریب اور مفلس کے حال پر رہتی ہے۔اور اسی کا اثر ہے کہ باوجود بالکل سروسامانی اور بے لیاقتی کے بعض کام ایسے ہوجاتے ہیں جو لوگوں کیلئے پسندیدہ قرار پاتے ہیں ۔ یہ درحقیقت آپ جیسے بزرگوں کی نگاہ کرم کا طفیل ہے۔ اور جناب والا کے سلسلے میں برکات کاتو مجھے مشاہدہ ہے ۔ اس خط کا مقصد حضرت والا کی مزید توجہ اور دعا کاحاصل کرنا ہے ۔ آج کل اپنی علمی و عملی مفلسی و قلاشی کا