ہیں ، حسن یا قبیح۔ ان دونوں میں نسبت تضاد کی ہے۔ اب اگر قبیح پر قدرت نہ ہو تو حسن پر قدرت آپ سے آپ ختم ہوگئی ، توصفات تو پہلے قدرت سے خارج تھیں ، افعال بھی نکل گئے، لو میدان ہی صاف ہوگیا، اب کہنا چاہئے کہ خداتعالیٰ کو محض نام کے لئے قادر کہا گیا تھا ، ورنہ اس میں قدرت کانام ونشان نہیں ، یہ بعینہٖ فلاسفہ کا مسلک ہے، دیکھو بات کہاں سے کہاں جاپہونچی ۔ نعوذ باﷲ من ھٰذہ الخرافات وأعاذنااﷲ من سوء الفہم وثبتنا اﷲ علی الصراط المستقیم
ہاں اگر کوئی صاحب دلیل سے ثابت کردیں کہ احد الضدین پر قدرت ضد آخر پر قدرت کو مستلزم نہیں ہے تو ہم بھی شوق رکھتے ہیں ،ذرا دیکھیں تو سہی۔ کوئی صاحب اتنا ہی ثابت کردیں کہ افعال ذات باری تعالیٰ کے ساتھ قائم ہیں ، اور اس سے کوئی خرابی لازم نہیں آتی تو ہم بھی اس کے مشتاق ہیں ،ا لبتہ اس دوسری صورت میں انھیں کذب کے ساتھ صدق کو دائرۂ قدرت سے خارج کرنا پڑے گا، کیونکہ ذاتیات سب کے سب واجب بالذات ہوتی ہیں ، انھیں زیر قدرت لانا کسی کے بس میں نہیں ، اس طرح خدا کو حقیقی معنی کے لحاظ سے صادق کہنا ممکن ہی نہ ہوگا۔
مکتوب طویل ہوگیا، لیکن سوچاکہ کسی قدر تفصیل کردی جائے تو اطمینان ہوجائے گا، بغور پڑھو، ان شاء اﷲ سمجھ جاؤگے، اگر کہیں شبہ ہوتو پھر لکھو ، کئی جگہ میں نے طوالت کے خوف سے بعض امور کو ترک کردیا ہے ، ان شاء اﷲ اتنے ہی سے تشفی ہوجائے گی ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۱۰؍صفر ۱۴۰۶ھ
٭٭٭٭٭