اثبات حکم العقل بحسن الافعال وقبحھا مقیسۃ إلی اﷲ تعالیٰ وستعرف بطلانہ ۔
اس سے کیا سمجھے؟ یہ کہ کذب حق تعالیٰ کے حق میں بالاتفاق محال ہے، معتزلہ کے نزدیک بھی اور ہمارے نزدیک بھی ، معتزلہ اس کو اس طرح ثابت کرتے ہیں کہ کلام ان کے نزدیک محض کلام لفظی کو کہتے ہیں ، کلام نفسی کے وہ منکر ہیں ، اور کلام لفظی کا از قبیل افعال ہونا ظاہر ہے ، اور کذب اس میں قبیح ہے ، اور کوئی قبیح ان کے زعم کے مطابق تحت القدرۃ نہیں ہے ، لہٰذا کذب بھی مقدور باری تعالیٰ نہیں ہے ، یہ طریقۂ استدلال معتزلہ کا ہے جس کا بطلان آگے چل کر شارح مواقف کریں گے ، اس استدلال کو مؤلف نے اپنی ناسمجھی کی وجہ سے اپنے واسطے نقل کردیا۔
حقیقت وہی ہے جو میں نے پہلے لکھا کہ کلام کے دومعنی ہیں ، کلام نفسی اور کلام لفظی۔ کلام نفسی از قبیل صفات حقیقیہ ہے ، اس میں صدق وکذب کا احتمال نہیں ، اور کلام لفظی از قبیل افعال ہے اور افعال حادث ہیں ، لہٰذا از قبیل ممکنات ہیں ، اور اس کا صدق وکذب بھی از قبیل ممکنات بمعنی کونھا تحت القدرۃ ہے۔
دوسرے اس طور پر بھی غور کرو کہ صفات حقیقیہ ذاتیہ تو تحت القدرۃ ہوہی نہیں سکتیں ، اب ان کے بعد اس دنیا میں بچا کیا بجز افعال باری تعالیٰ کے، چنانچہ ظاہر ہے کہ تمام ممکنات ومخلوقات بجمیع افرادھا و اجزاء ھا حق تعالیٰ کے افعال کے مظاہر ہیں ۔ اب اگر افعال بھی قدیم اور قائم بذاتہ تعالیٰ مان لو اور انھیں بھی دائرۂ قدرت سے خارج کردو تو یہ بتاؤ کہ قدرت جو ایک صفت کمال ہے اس کا ظہور کہاں ہوگا، اس طرح تو کوئی چیز دائرۂ قدرت میں باقی نہیں رہ جاتی، پھر یہ پڑھ چکے ہوکہ ضد میں سے ایک پر اختیار ماننا دوسرے کے اختیار کو مستلزم ہے۔ اور افعال کی دو قسمیں