س
عزیزی وحبیبی ! زادکم اﷲ علماً وعملاً ورزقکم فھماً وصلاحاً
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
کل تمہارا خط اذان عشاء کے بعد ملا، اس وقت ایک نگاہ طائرانہ ڈال لی تھی ، آج دوبارہ بغور پڑھا، بہت خوشی ہوئی کہ تم نے خط کے مضامین سمجھ لئے ، مجھے آں عزیز سے یہی توقع تھی ، اور اسی لئے قدرے بسط سے میں نے کام لیا تھا ، خداتعالیٰ تمہیں علم نافع اور عمل صالح نیز فہم سلیم کی دولت سے سرفراز فرمائے۔
اب تم اپنے اشکالات کے جواب سنو! اپنے خط کی نقل تو رکھے ہوگے ، اس لئے تمہارے سوالات نقل نہیں کرتا ، محض جواب پر اکتفاء کروں گا۔
براہین قاطعہ کی جس عبارت سے تمہیں اشکال ہوا وہ شروع سے میرے ذہن میں تھا ، لیکن اس وقت کتابوں کی طرف رجوع کی فرصت نہ تھی، محض ایک کتاب سامنے تھی ، بہت عجلت میں خط تحریر کیا تھا ، اس لئے یہ اشکال زیر تحریر نہیں آیا، اب تم نے سوال کیا تو میں نے فتاویٰ شامی اور شرح عقائد کی جانب مراجعت کی ، اب حقیقت سنو!
براہین قاطعہ کی عبارت اور میری عبارت میں جو تضاد معلوم ہوتا ہے وہ درحقیقت مسئلہ کا تضاد نہیں ہے ،تعبیر کااختلاف اور تشریح وعید کا اختلاف ہے، وعید کی جو تشریح میں نے کی ہے وہ کسی کتاب میں نظر سے نہیں گذری۔ حضرت مولانا تھانوی قدس سرہٗ کے بعض مواعظ میں اور قرآن وحدیث کے بعض الفاظ کی تفسیر وشرح کے ذیل میں اس کی جانب اشارہ موجود ہے، اگر تم چاہوگے تو بعد میں ان اشاروں کی تفصیل بتاؤں گا۔ ابھی اصل مدعا پر گفتگو ضروری ہے ، البتہ جو تشریح کتابوں میں نظر سے گذری ، اس کی بنا پر خلف فی الوعید کا مسئلہ زیر بحث آجاتا ہے، اس تشریح کے لحاظ