خود حادث کہہ چکے پھر اپنی بات کو پلٹ دینا اہل بدعت ہی کاکام ہوسکتا ہے۔ صراط مستقیم چھوڑ کر آدمی یونہی سرگرداں اور حیران ہوتا ہے۔
بات یہ ہے کہ افعال کے مبادی ومناشی جو صفات حقیقیہ ہیں وہ قدیم ہیں ، خود افعال قدیم نہیں ہیں ، ورنہ مخلوقات کا قدیم ہونا لازم آئے گا، مثلاً فعل خلق اگر قدیم ہے تو اس کا مفعول بھی قدیم ہوگا ، کیونکہ مؤلف بے چارہ تو ہرجگہ قدرت حقیقیہ مراد لے گا، اور فعل کے ساتھ بہر حال قدرت حقیقیہ ہوتی ہے ، اس لئے جس آن فعل ہوگا اسی آن اس کے مفعول کا وجود بھی ضروری ہوگا ، ورنہ اگر فعل اور مفعول میں تخلف ہواتو قدرت کہاں ہوئی ، مثال سے سمجھو کہ حق تعالیٰ کا فعل خلق آسمان سے متعلق ہواتو دو صورت ہے ، یا تواسی وقت آسمان کا وجود ہوایا نہیں ؟ اگر ہوگیا تو چونکہ بقول مصنف فعل خدا قدیم ہے ، لہٰذا آسمان بھی قدیم ہے، اور اگر کہو کہ اس وقت آسمان کا وجود نہیں ہوا تو قدرت کدھر گئی ، اور نصوص صریحہ سے ظاہر ہے کہ آسمان کا وجود بہت بعد کا ہے، لہٰذا عرصۂ دراز تک قدرت سے خدا کا خالی ہونا لازم آئے گا ،نعوذباﷲ۔ بہر حال دونوں شق باطل ہے، لہٰذا افعال کا قدیم ہونا بھی باطل ہے۔
اصل حقیقت جس پر کوئی استحالہ نہیں ، یہ ہے کہ صفت خلق قدیم ہے وہ فعل خلق کی محتاج نہیں ہے، اور فعل خلق حادث ہے ، زید آج پیدا ہوا تو فعل خلق اس کے حق میں پایا گیا ، افعال باری تعالیٰ کوقدیم کہنا بداہت کے خلاف ہے۔
تم نے شارح مواقف کی عبارت یمتنع علیہ الکذب اتفاقاً نقل کی ہے ، اس کے آگے کی عبارت بھی دیکھ لو ، فرماتے : أما عند المعتزلۃ فلوجھین الاول أنہ الکذب فی الکلام الذی ھو عندھم من قبیل الافعال دون الصفات قبیح وھو سبحانہ لایفعل القبیح وھو بنائً علیٰ اصلھم فی