ہے تو معلوم نہیں قدرت علی الکذب میں کیا استحالہ ہے، اور اگر اس سے مراد ’’ صدور مقدور ‘‘ ہے،تو کون کہتا ہے کہ کذب کا صدور ہوا، آخر ابھی سن چکے ہوکہ قدرت اور صدور میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔ اسی طرح لکھا ہے کہ ’’قدرت خلق قبل خلق حاصل ہے ، حقیقی طور پر خلق کا محتاج نہیں ‘‘اس سے کیا مطلب نکلتا ہے؟ اسی کے ساتھ یہ عبارت بھی دیکھ لو’’ اور کلام کا بھی محتاج نہیں ، بلکہ وہ قبل کلام متکلم ہے‘‘ یہ دونوں عبارت مؤلف نے محض کم فہمی کے باعث لکھا ہے، قدرت خلق قبل خلق ، متکلم قبل کلام جب کہا گیا تو گویا مصنف نے خود تسلیم کرلیا کہ کلام ہو یا خلق دونوں دو معنوں میں استعمال ہوئے ہیں ، ظاہر ہے کہ صفت خلق کے بغیر خالق ہونا،اور صفت کلام کے بغیر متکلم ہونا محال ہے ، ورنہ الخالق لیس بخالق اور المتکلم لیس بمتکلمکہنا پڑے گا۔ معلوم ہواکہ ایک خلق پہلے ہے اور ایک خلق بعد میں ، اور ایک کلام پہلے ہے اور ایک کلام بعد میں ، اگر دونوں کو بالمعنی الواحد قرار دو تو قبلیت وبعدیت کا کیا معنی؟ ناچار یہی کہنا پڑے گا کہ پہلا خلق اور کلام صفت حقیقیہ قائم بذاتہ تعالیٰ ہے ، اور قدیم ہے۔ اور دوسرا خلق اور کلام فعل باری تعالیٰ ہے جس کانمبر بعد میں آیا، اور چونکہ یہ افعال مسبو ق بالعدم ہیں جیسا کہ مؤلف نے ’’ قبل خلق اور قبل کلام ‘‘ کہہ کر اس کا اقرار کیا ہے ، لہٰذا وہ حادث اور ممکن ہیں ، لہٰذا وہ مقدور باری تعالیٰ ہیں ،اور صدق وکذب چونکہ فعل کلام کی صفات ہین لہٰذا وہ بھی مقدور باری تعالیٰ ہیں ۔آگے پھر عبارت دیکھو ’’پھر یہ کہ تمام صفات وافعال خدا تعالیٰ قدیم ہیں اور ان کا عدم وزوال محال ہے‘‘
بے چارہ مؤلف ابتدائی عقل سے بھی محروم ہے اور اپنے کلام کا مطلب بھی نہیں سمجھتا ، آخر خلق قبل خلق جب کہہ چکے تو اس دوسرے خلق کو قدیم کہنے کا کیا معنی؟ جس چیز کو بعدیت کے ساتھ موصوف کرچکے ہیں ، اس میں قدم کہاں سے آیا، اس کو تو