کیلئے شرط ہے، خدا تعالیٰ جس قدرت کے ساتھ موصوف ہے وہ قدرت بالمعنی الثانی ہے ، قدرت بالمعنی الاول تو افعال کے مقارن ہوتی ہے، اگر وہ قدرت خداتعالیٰ کے اندر مانی جائے تو لازماً یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قدرت صفت قدیمہ نہیں ہے ، قدرت کے دونوں معنی حقیقی ہیں ، مجاز ان میں سے کوئی نہیں ہے، حقیقی صرف نام ہے ،حقیقت ومجاز سے اس کا کچھ علاقہ نہیں ہے ، اب تم نے جو عبارت نقل کی ہے اس کا یہ ٹکڑا ملاحظہ کرو!
’’ پھر یہ کہ قدرت باری تعالیٰ کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کوقدرت حقیقیہ حاصل ہے نہ کہ قدرت مجازی ، اور قدرت حقیقیہ کا مطلب وقوع قدرت ہے جیسے قدرت خلق قبل خلق حاصل ہے ، حقیقی طور پر خلق کا محتاج نہیں ، کلام اس کی صفت قدیمہ ہے، تو وہ کسی مخاطب اور سامع کا محتاج نہیں اور کلام کا بھی محتاج نہیں ، بلکہ وہ قبل کلام متکلم ہے، اسی طرح کذب جوکہ محال تحت قدرت ہے تو گویا حقیقۃً قدرت ہے اور اس کا وقوع ہوچکا ہے تو خدا تعالیٰ سے کذب بالفعل کا صدور لازم آئے گا ، پس یہ محال کو مستلزم ہے اور مستلزم محال کو محال ہوتا ہے ، تو کذب باری تعالیٰ محال ہوا نہ کہ ممکن۔‘‘
معلوم نہیں یہ الفاظ تمہارے ہیں یا صاحب بوارق کی عبارت تم نے نقل کی ہے ، صرف یہ ٹکڑا نہیں بلکہ پوری عبارت ناسمجھی کا کرشمہ ہے۔ پہلی غلطی تو اس میں یہ ہے کہ قدرت کے دومعنوں میں ایک کا نام حقیقی دیکھ کر دوسرے کو مجازی قرار دے لیا، اور پھر بزعم خودحقیقی معنی کو خدا تعالیٰ کے ساتھ متعلق کردیا، حالانکہ اس میں چنددر چند خرابیاں ہیں ، یہ دوسری غلطی ہے ، تم جان چکے ہو کہ قدرت کا یہ معنی حق تعالیٰ کی صفت قدیمہ نہیں ہے بلکہ معنی ثانی اس کی صفت قدیمہ ہے۔
اب تیسری ناسمجھی دیکھو! قدرت حقیقیہ کا مطلب ’’وقوع قدرت ‘‘ بیان کیا ہے، اس کی مراد واضح نہیں ہے، اگر ’’ وقوع قدرت ‘‘ سے مراد قدرت کا تحقق ووجود