واجب ہے مگر واجب بالذات نہیں ، واجب بالذات اس وقت ہوتا جبکہ وہ عین ذات ہوتا، یا جزء ذات ہوتا ، یالازم ذات ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ وہ صفت حقیقیہ محضہ ہوتا یا صفت حقیقیہ اضافیہ باعتبار مبدأ یعنی لازم ذات ہوتا، اور ثابت ہوچکا کہ کلام لفظی از قبیل افعال ہے جو حادث اور مقدور ہوتے ہیں ، تو صدق واجب بالذات کیونکر ہوگا، اور پھر کذب محال بالذات کیوں ہوگا، ہاں کذب خلاف حکمت ہے اور خلاف حکمت ہونا عیب ہے اور عیب سے پاک ہونا لازم ذات ہے ، لہٰذا ان دو واسطوں سے حق تعالیٰ کا عیب کذب سے پاک ہونا ضروری ہے ، تو کذب ممکن بالذات محال بالغیر ہوا، اور محال بالغیر اپنی اصل کے اعتبار سے ممکن اور حادث ہوتا ہے، لہٰذا اس کا مقدور باری تعالیٰ ہونا شبہ سے بالاتر ہے۔
ایک بات یہاں اور سمجھ لووہ یہ کہ صدور قبائح اور چیز ہے، اور قدرت علی القبائح دوسری چیز، دونوں میں زمین وآسمان کا فاصلہ ہے، صدور قبائح بری اور قابل نفرت چیز ہے، اور قدرت علی القبائح صفات عالیہ میں سے ہے۔ دیکھو انبیاء قادر علی القبائح ہوتے ہیں ، مسلوب الاختیار نہیں ہوتے، ہاں صدور قبائح سے پاک ہوتے ہیں ، اسی لئے وہ قابل مدح ہیں ۔ اگر دونوں ایک درجے کی چیز ہوں تو انبیاء قابل مدح کیونکر ہوں ؟ اسی طرح یہ بھی سمجھ لو کہ قدرت دو معنوں کے درمیان مشترک ہے ، اور یہ دونوں اس کے حقیقی معنی ہیں ، ایک تو وہ قدرت جو فعل کی علت تامہ ہوتی ہے جس کے ساتھ فعل کا وجود ضروری ہے ، اگر فعل نہیں ہے تو یہ قدرت بھی نہیں ، اسی کو قدرت حقیقیہ کہا جاتا ہے۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ احکام تکلیفیہ کے لئے یہ قدرت معتبر نہیں ہے ، دوسرے قدرت کا وہ معنی جو عرف عام میں بولاجاتا ہے جس کے مقابلے میں عجز آتا ہے یعنی کسی کام کے انجام دینے کی طاقت وصلاحیت کا ہونا ، یہی قدرت احکام تکلیفیہ