التعلق فذٰلک الکلام الواحد باعتبار تعلقہ بشیٔ مخصوص یکون خبراً وباعتبار تعلقہ بشیٔ آخر یکون امراً وکذا الحال فی البواقی۔
بہر حال یہ ثابت ہے کہ کلام نفسی صدق وکذب اور خبر وانشاء وغیرہ تقسیمات سے بری ہے ، کیونکہ وہ بسیط ہے اور بسیط کو صادق وکاذب کیونکر کہا جاسکتا ہے، دیکھو لفظ جب تک مفرد ہوتا ہے ، صدق وکذب کااحتمال نہیں رکھتا، لیکن یہ صفت جب تنزل کرکے درجۂ فعل میں آتی ہے اور کلام کو الفاظ کاجامہ پہنادیا جاتا ے تو اب یہ بسیط نہیں رہا مرکب ہوگیا، کیونکہ الفاظ مرکبہ کے ساتھ ان کا تعلق قائم ہوگیا، یہی کلام لفظی ہے، کلام لفظی نہ قدیم ہوتا نہ واجب نہ بسیط ہوتا، اور نہ باری تعالیٰ کے ساتھ قائم کلام نفسی کی مثال ایسی سمجھو جیسے روشنی جو سورج کے ساتھ قائم ہے، اور کلام لفظی کی مثال ایسی سمجھو جیسے دھوپ جو اشیاء عالم پر پڑتی ہے، اس میں خبر وانشاء کی گنجائش ہوتی ہے۔
اس تفصیل سے تم نے سمجھ لیا ہوگا کہ کلام نفسی صفت حقیقی ذاتی ہے ، اس میں صدق وکذب کی گنجائش نہیں ہے ، اس اعتبار سے اگر کہاجائے کہ صدق وکذب مقدور باری تعالیٰ نہیں ہے تو مجازاً کہہ سکتے ہیں ، کیونکہ جب وہ صدق وکذب کا محل نہیں تو صدق وکذب کی نفی کرنا گو حقیقۃً صحیح نہ ہو، مگر مجازاً درست ہے، صدق وکذب کا تعلق حقیقۃً کلام لفظی سے ہے اور کلام لفظی از قبیل افعال ہے، اور گزرچکا ہے کہ افعال باری تعالیٰ حادث ہیں ، کل یوم ھو فی شان میں اس کی طرف اشارہ موجودہے، اور حادث قائم بذاتہ تعالیٰ نہیں ہوتا ورنہ ذات باری تعالیٰ میں حدوث لازم آئے گا، اس بنا پر اس کا مقدور ہونا بھی یقینی اور قطعی ہے ، اور صدق وکذب چونکہ کلام لفظی کی صفات ہیں لہٰذا اس کے تابع ہوکر ان کا بھی ممکن بمعنی مقدور ہونا ثابت ولازم ہوگا۔
ہاں باری تعالیٰ کی جناب میں کذب ممتنع ہے ، لیکن ممتنع بالذات نہیں ، صدق