اضافیہ ہیں ، بالفاظ دیگر یوں کہہ لو کہ صفات فعلیہ مثلاً خلق وارزاق وغیرہ کے دو رخ ہیں ۔ ایک یہ کہ حق تعالیٰ کی ذات عالی کے ساتھ یہ چیزیں قائم ہیں ، اور اس میں ان امور کی قدرت پائی جاتی ہے، اس لحاظ سے یہ صفات قدیمہ ہیں ، دوسرے یہ کہ ان صفات کی تاثیر وفعلیت کسی شیٔ کے اندر ظاہر ہو، اس اعتبار سے یہ افعال ہیں تو صفات بالمعنی الاول قدیم اور واجب بالذات ہیں اور افعال بالمعنی المذکور حادث اور ممکن بالذات، کیونکہ ان کے تغیر وتبدل اور ایجاب وسلب سے ذات باری میں کوئی تغیر نہیں ہوگا، کیونکہ مبدأ اپنی جگہ ثابت وقائم ہے ، مثلاً حدیث میں ہے کہ کان اﷲ ولم یکن معہ شیٔ، یعنی اﷲ تھا ، اور اس کے ساتھ کوئی چیز نہ تھی،اور ظاہر ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب فعل خلق کا ظہور نہ تھا ، تو صفت خلق یعنی قدرت تخلیق تو حق تعالیٰ کے ساتھ ہمیشہ برقرار ہے ، مگر فعل خلق بعد میں ہوا، اور ظاہر ہے کہ بعد میں ہونے والی چیز حادث نہ ہوگی تو اور کیا ہوگی ، بالکل بدیہی امر ہے۔
تیسری بات یہ سمجھو کہ کلام باری تعالیٰ دومعنوں میں مستعمل ہے ، اول صفت حقیقی واحد بسیط جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ قائم ہے ، اور اس کے مغائر نہیں ہے، اسے کلام نفسی سے تعبیر کرتے ہیں ،دوسرے وہ کلام جو منزل علی الرسول ا ہے ،یہ کلام لفظی ہے لیکن ہماری بحث سے خارج ہے ۔ اس لئے ہم کلام نفسی بالمعنی الاول ہی مراد لیتے ہیں ، کلام نفسی فی نفسہ بسیط ہوتا ہے، اس میں صدق وکذب اور خبر وانشاء کی گنجائش نہیں ہوتی ، البتہ تعلقات مخصوصہ کے باعث اس کو خبر وانشاء وغیرہ سے بھی تعبیر کردیں تو مضائقہ نہیں ، دوسرے لفظوں میں کلام نفسی کو مبدأ کلام بھی کہہ سکتے ہو۔ شرح مواقف میں ہے : وکلامہ تعالیٰ واحدۃ عندنا لما مر فی القدرۃ وأما إنقسامہ إلی الامر والنھی والخبر ولاستفھام والنداء فانما ھو بحسب