تغیر وتبدل کی گنجائش ہوگی اور اضافیہ محضہ میں مطلقاً تغیر درست ہے، یہ تفصیل شرح مواقف میں مذکور ہے۔ طوالت کے خوف سے عبارت نقل نہیں کرتا۔
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھو کہ صفات حقیقیہ محضہ میں اگر تغیر کی گنجائش مان لی جائے ، تو ذات باری میں تغیر لازم آئے گا ، کیونکہ وہ عین ذات ہیں ، اس لئے ان کا سلب محال بالذات ہے ، صفات حقیقیہ اضافیہ کا مبد أ ومنشاء چونکہ ذات باری تعالیٰ ہے، اس لئے باعتبار مبدأ کے ان میں تغیر ماناجائے ، تو ذات میں تغیر لازم آئے گا ، کیونکہ یہ صفات باعتبار مبدأ کے لازم ذات ہیں ، اور لازم کے انتفاء سے ذات کا انتفاء ضروری ہے، البتہ ان کا تعلق جو معروضات ومضاف الیہ کے ساتھ ہے وہ قابل تغیر ہے ، اس عروض وتعلق کو حادث ماننا ضروری ہوگا۔ مثال درکار ہوتو بغیر تشبیہ کے یوں سمجھو کہ سورج کے لئے روشنی صفت حقیقیہ اضافیہ ہے، روشنی کا مبدأ تو سورج ہے مگر روشنی کا تحقق اسی وقت ہوتا ہے جب وہ اشیاء عالم پر عارض ہوتی ہے، تو باعتبار مبدأ کے روشنی سورج کے لئے لازمِ ذات ہے، اگر روشنی کی نفی کردو تو سورج ہی معدوم سمجھو، ہاں عروض اس کا قابل تغیر ہے ، یہی وجہ ہے کہ زمین پر تشکلات مختلف ہوتے رہتے ہیں ، اور دن میں ہوتی ہے ، رات میں غائب ہوجاتی ہے، حالانکہ ذات کے اندر وہ موجود ہے۔ اس مثال کے بعد پھر مقصد کی جانب آؤ، باری تعالیٰ کی صفات فعلیہ یعنی وہ صفات جو فعل اور تاثیر پر دلالت کرتی ہیں ، اور جن کے اطلاق میں کسی فعل کا صدور ملحوظ ہوتا ہے جیسے تخلیق، ترزیق، احیاء واماتت وغیرہ، انھیں اشاعرہ تو حادث مانتے ہیں ، لیکن ہم لوگ جو ماتریدی ہیں انھیں قدیم کہتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ باعتبار مبدأ قدیم ہیں ، البتہ باعتبارتعلق بالمضافات الیہا حادث ہیں ، گویا صفات فعلیہ حضرات اشاعرہ کے نزدیک اضافیہ محضہ ہیں ، اور ماتریدیہ کے نزدیک حقیقیہ