مرتبہ تعقل میں اور نہ ترتب آثار میں ، دوسرے لفظوں میں اسے صفت لازم سمجھ لو۔اور حقیقیہ اضافیہ مرتبۂ تعقل میں تو بے شک اضافت الی الغیر سے بری ہوتی ہے، مگر درجۂ تحقق میں اضافت الی الغیر اس میں ہوتی ہے، مثلاً علم کے تحقق کے لئے اضافت الی المعلوم ہوگی ،اور قدرت کے تحقق میں اضافت الی المقدور ہوگی۔ اور اضافیہ محضہ وہ ہے جس کا مبدأ ذات باری تعالیٰ نہ ہو ، مثلاً معیت یا قبلیت اس کا مبدأ ذات باری تعالیٰ نہیں ہے بلکہ جس کے ساتھ یا جس کے پہلے ہے ، وہی اس معیت اور قبلیت کا منشاء ہے۔ دوسری مثال سے سمجھو! تم کسی کے دائیں ہو،تو دایاں ہونے کا منشا تمہاری ذات میں نہیں ہے، بلکہ اس کی ذات میں ہے جو تمہارے بائیں بیٹھا ہے، اور اگر اٹھ کر وہ تمہارے داہنے آجائے تو اب تم بائیں ہوگئے ، اس کا بھی منشاء تمہاری ذات میں نہیں ہے، ورنہ تم تو ایک ہی جگہ بیٹھے ہو ، پھر دائیں بائیں کا اختلاف کیوں ؟ معلوم ہوا کہ اس کا منشاء دوسراشخص ہے، یہی بات ہرجگہ ہوگی ، غرضیکہ اضافیہ محضہ کا تعقل وتحقق دونوں ، موصوف سے جدا دوسری جگہ پایا جاتا ہے۔
بغور ملاحظہ کرو! صفات حقیقیہ محضہ تو عین ذات واجب الوجود ہیں ، لہٰذا ان کا واجب بالذات ہونا شبہ سے بالاتر ہے ، ان میں کسی طرح کا تغیر وتبدل ممکن نہیں ۔ اور صفات حقیقیہ اضافیہ میں دو جہتیں نکل آئیں ، ایک مبدأ کی جہت اور دوسرے اضافت الی الغیر کی جہت، مبدأ تو ان کا ذات باری تعالیٰ ہے ، لہٰذا ان میں تغیر وتبدل محال، وہ لازم ذات ہیں ، اور اضافت الی الغیر کے لحاظ سے چونکہ ان کا تعلق غیر کے ساتھ ہوتا ہے ، مثلاً علم کا تعلق معلوم سے اور قدرت کا تعلق مقدور سے، اور ظاہر ہے کہ معلومات اور مقدورات محل تغیر ہوسکتی ہیں ، بلکہ باستثنائے واجب بالذات سبھی معلومات اور بلا استثناء تمام مقدورات محل تغیر ہوتی ہیں ، اس لئے ان تعلقات میں بھی