ہیں ، اور اس پریشان حالی کا دور ہونا روئے محبوب کا اثر بتایا ہے ، زلف جیسی سیاہ ہوتی ہے ، چہرہ ویسا ہی روشن اور دمکتا ہوا ہوتا ہے ، یہ محبوب کی شان جمال ہے ، اور یہ بھی معلوم ہے کہ زلف و رُخ میں اتصال ہے ، پس شانِ جلالی کی وجہ سے اگر آشفتہ حالی ہے تو محبوب کی شان جمالی کی وجہ سے معاً خوش حالی آجاتی ہے ، گویا زُلف محبوب نے مسئلہ میں جو پیچیدگی ڈالی تھی روئے نگار نے لگے ہاتھوں اسے کھول دیا ، اور پیچیدگی دور کردی ۔ سبحان اﷲ !
تیسرا شعر ملاحظہ ہو ۔
در شمار ارچہ نیارد کسے حافظ را شکرکاں محنت بے حد وشمار آخر شد
یعنی اگر چہ کوئی شخص حافظ کو قابل شمار اور لائق اعتنا نہیں سمجھتا تھا ، مگر ا ﷲکا شکر ہے کہ یہ بے حد وبے شمار تکالیف اپنے خاتمہ کو پہونچ گئیں ، اب ان میں سے کچھ باقی نہیں رہا ۔
یہ پوری غزل اسی رنگ میں ڈوبی ہے ۔ سب اشعار لکھنے لگوں تو بہت طوالت ہوگی ، آپ کے ہاں شاید دیوان حافظ ہو ، اس میں ملاحظہ فرمالیں ۔
اﷲ تعالیٰ نے بہت مناسب ، برمحل اور تسلی بخش مضمون عطا فرمادیا ، میں نے ان تینوں اشعار کو فال نیک سمجھا ۔ اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ عالی سے کیا بعید ہے کہ وہ خاص حالات کے لئے بھی اور عام حالات کے لئے بھی اسے قبول فرمالیں ۔
والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۱۱؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۱۳ھ
٭٭٭٭٭
مخدومی و معظمی حضرت اقدس ! زیدت معالیکم