یہ خیال آنا تھا کہ دل دعا کی کیفیت میں ڈوب گیا ، نماز کے بعد کافی سکون محسوس ہوا ، سوچاکہ لسان الغیب حافظ شیرازی سے دریافت کرنا چاہئے ۔ نیک فالی شریعت میں ممنوع نہیں ہے ، بس اس کو اس کی حد پر رہنا چاہئے ، اعتقاد نہیں بننا چاہئے ۔ میں نے اﷲ سے دعا کی اور دیوان حافظ ہاتھ میں لے کر دعا کی یا اﷲ ! حضرت ماسٹر صاحب کے حق میں جو بات آپ کے علم میں مقدر ہے اسے اس کتاب میں ظاہر فرمادیں ، پھر جو صفحہ کھولا تو اس کے ابتداء میں یہ تین شعر نکلے ، آپ بھی سن لیجئے ، مجھے تو بہت فرحت ہوئی ، اور اﷲ کی ذاتِ عالی سے امید باندھے ہوئے ہیں کہ انشاء اﷲ ایسا ہی ہوگا ۔ پہلا شعر یہ ہے ،
صبح امید بُد معتکف پردۂ غیب
گو بروں آئے کہ کارِ شبِ تار آخر شد
مطلب یہ ہے کہ صبح امید جو کہ پردۂ غیب میں گوشہ نشین تھی ، اس سے کہو کہ اب باہر آئے کہ شب تاریک کاکام اب تمام ہوگیا ہے ۔
دوسرا شعر بالکل آپ کے ذوق کے مطابق ہے ۔
گرچہ آشفتگی ٔ کارِ من از زلفِ تو بود
حل ایں عقدہ ہم از روئے نگار آخر شد
اگرچہ میری پریشان حالی تیری زلف ہی سے تھی ، لیکن بہر حال اس پیچیدگی کا حل بھی محبوب کے رخ روشن ہی سے ہوا ۔
حافظ نے آشفتہ حالی کو زلف یار کا اثر بتایا ۔ ا س سے مراد اﷲ تعالیٰ کی وہ شان ہے جس سے آدمی کے احوال میں ابتری آتی ہے ، زلف سیاہ ہوتی ہے اور الجھی بھی رہتی ہے ، یہ ایک خاص شان الٰہی کی طرف اشارہ ہے ، جسے شان جلال سے تعبیر کرسکتے