بھی اس کے دائرۂ اختیار سے خارج ہے، غرض ضدین میں سے اگر ایک کو اختیار میں لاتے ہوتو دوسرے کو بھی لاؤ، اور ایک میں اضطرار تسلیم کرتے ہو تو دوسرے میں بھی خود بخود اضطرار داخل ہوگیا۔ اب غور کرو کہ عقد قضیہ مطابق للواقع ، ایک فعل ہے، اس کے بالمقابل عقد قضیہ غیر مطابق للواقع ،اس کی ضد ہے۔ اب اگر کوئی شخص مدعی ہے کہ اول تحت القدرۃ ہے ، تو گویا اس نے خود اقرار کرلیا کہ ثانی بھی تحت القدرۃ ہے، اور اگر کوئی کہتا ہے کہ ثانی تحت القدرۃ نہیں ہے تو گویا اس نے یہ مان لیا کہ اول بھی تحت القدرۃ نہیں ۔ بالفاظ دگر اگر کذب اضطراراً حق تعالیٰ سے منتفی ہے تو صدق بھی اضطراراً ہی اس کے لئے لازم وثابت ہوگا ، ورنہ اس کا کوئی مطلب نہیں کہ صدق کو تحت تصرف واختیار مانو اور کذب کو اختیار سے خارج کردو۔ اور تم جانتے ہو کہ کلام منحصر ہے خبر اور انشاء میں ، اور خبر منحصر ہے صدق اور کذب میں ، پھر جب صدق وکذب دونوں کو قدرت کے دائرے سے خارج کردیا تو خدا کا اختیار محض انشاء پر رہا ، اور کلام کا ایک بڑا حصہ قدرتِ خداوندی سے نکل گیا ، نعوذ باﷲ منہ۔ اس سے زیادہ تو خود بندوں کو قدرت حاصل ہے، سوچو تو سہی ، خدا کو کذب سے بچانے کی کوشش میں اتنی دور نکل گئے کہ حق تعالیٰ کو محض بے بس اور مجبور بناکر رکھ دیا۔ یہ طریقہ در حقیقت فلاسفہ اور معتزلہ کا ہے، فلاسفہ کے نزدیک اﷲ تعالیٰ کے افعال سب اضطراری ہیں ، اور معتزلہ کا خیال یہ ہے کہ قبائح کا صدور حق تعالیٰ کی قدرت میں ہے ہی نہیں ، اور اس اصول کی جو بنا ہے وہ اور زیادہ فاسد ہے، تفصیل کا موقع نہیں ہے ورنہ وہ بھی لکھ دیتا۔ ان کی دلیل بعینہٖ وہی ہے جو تم نے نقل کی ہے ، اگر امکان تسلیم کرلیا جائے تو وقوع محتمل ہوگا، اس طرح قبائح کا صدور محتمل ماننا پڑے گا، لہٰذا اسے ممکن ہی نہ قرار دو۔ چلو چھٹی ہوئی، لیکن یہ نہ سوچا کہ احتمال وقوع سے چھوٹے تو اضطرار میں