سے تم نے سمجھ لیا ہوگا کہ خلف فی الوعید کے امکان یا وقوع کی وجہ سے اہل سنت کے نزدیک امکان کذب کا مسئلہ زیر بحث آتا ہی نہیں ، البتہ معتزلہ اپنے اصول کے ماتحت خلف فی الوعید کو کذب کے ماتحت لاتے ہیں ، اور یہی مسئلہ شیعہ اور خوارج کا بھی ہے۔ اس لئے اہل سنت کو تو اس مسئلہ میں گھسنا ہی نہیں چاہئے، مگر اہل معقول کو چونکہ علوم دینیہ میں کافی درک نہ تھااور وہ اس حقیقت سے بے خبر تھے ، اس لئے شور مچادیا، حالانکہ ا نھیں خبر نہیں کہ اس طرح وہ کہاں جاپہونچے، اس کی حقیقت عنقریب آگے واضح ہوگی ۔ ان شاء اﷲ
چلو اب خالص امکانِ کذب کا مسئلہ لو! کذب کی حقیقت کیا ہے؟ واقعہ کے خلاف کوئی کلام بولنا، اصطلاحی لفظ میں یوں کہو کہ عقد قضیہ غیر مطابق للواقع ، اور صدق کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے برعکس واقعہ کے مطابق کلام بولنا، یعنی عقد قضیہ مطابق للواقع، جو لوگ کہتے ہیں کہ کذب تحت القدرۃ نہیں ہے ،ان کے کہنے کا حاصل یہی ہے ناکہ حق تعالیٰ کوعقد قضیہ غیر مطابق للواقع ، پر قدرت حاصل نہیں ہے کیونکہ وہ عیب ہے، اور عیب حق تعالیٰ کی شان میں لزوماً ممتنع ہے۔
اس بات میں غور کرنے سے پہلے ایک عقلی قاعدہ مسلمہ بدیہیہ عند العقل پر غور کرو۔ کسی اہل عقل کو اس میں مجال اختلاف نہیں ہے کہ دو متقابل چیزیں جو آپس میں علاقہ تضاد کا یا عدم وملکہ کا رکھتی ہوں ، ان میں سے اگر ایک پر کسی کو قدرت اور اس کا اختیار تسلیم کیا جائے تو ضروری ہے کہ جانب مقابل کو بھی زیر تصرف واختیار مانا جائے ۔ اسی طرح ایک جانب اضطرار ہوگا تو دوسری جانب بھی اضطرار ہوگا، آدمی اگر حرکت پر قادر ہے تو سکون پر بھی قدرت رکھتا ہے ۔رعشہ والا سکون پر قدرت نہیں رکھتا تو کوئی نہیں کہتا کہ وہ حرکت پر قادر ہے۔مرد کو اگر عورت بننے کااختیار نہیں تو مرد ہونا