وعدوں کی تکمیل حق تعالیٰ شانہ کے ذمہ لازم وواجب ہے، اس کے نتیجے میں وہ کن خرابیوں میں پڑتے ہیں ، ان کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ، پھر کسی صحبت میں دیکھا جائے گا۔
البتہ وعیدوں کے سلسلہ میں اختلاف ہے کہ آیا ان کی تکمیل بھی ضرور ہوگی ، یا اس کے خلاف بھی ہوسکتا ہے؟ اس سلسلے میں معتزلہ تو اپنی سابقہ روش پر قائم ہیں ، یعنی جس طرح وعدوں کی تکمیل ضروری ہے اسی طرح وہ وعیدوں کی تکمیل کو بھی ضروری سمجھتے ہیں ، کیونکہ اگر ایسا نہ مانا جائے ، تو کلام خدا میں کذب لازم آئے گا، لیکن اہل سنت نے قرآن وحدیث کی صدہا نصوص میں دیکھا کہ گناہوں پر جو جو وعیدیں ہیں وہ برحق ہیں ، لیکن یہ بھی برحق ہے کہ حق تعالیٰ بہتوں کے گناہ بغیر کسی سزا کے محض اپنے فضل سے یا کسی کی شفاعت سے بخش دیں گے ۔ درحقیقت یہ وعیدیں وعدے نہیں ہیں بلکہ افعال شنیعہ کی خاصیات ہیں ، لہٰذا اگر ان کے خلاف کہیں عمل در آمد ہوتو اسے کذب نہیں کہا جاسکتا، بلکہ فضل اور بخشش کانام دیا جائے گا، جو قابل مدح اور لائق شکر ہے ، اس میں کوئی قباحت نہیں ، تو اہل سنت جو خلف فی الوعید کے قائل ہوئے ، اس میں شائبہ کذب ہے ہی نہیں ، کیونکہ کذب وہاں ہوتا جہاں وعدہ ہوتا، اور وعیدیں وعدہ نہیں خاصیاتِ افعال کی خبر یں ہیں ، اور بالکل برحق ہیں ، لیکن اس خاصیت کے ہوتے ہوئے اگر رحمت حق دستگیری فرمادے تو اس میں کذب کا کام ہی کیا ہے؟ آخر اگر سزا نہ دی جائے اور اس سے کسی کا حق نہ مارا جائے تو اس کو کون ظلم کہہ سکتا ہے، ہاں وعدۂ انعام اگر ایک طرف افعال حسنہ کی خاصیتوں کا بیان ہے تو اس کے ساتھ ساتھ ایک محکم وعدہ بھی ہے ، اور وعد ہ کا خلاف نقص اور عیب ہے، اس لئے اس کے خلاف کرنا ذاتِ خداوندی کو عیب لگائے گا۔ بہرکیف خلف فی الوعید غایت رحمت ہے ، اور خلف فی الوعد نقص اور عیب ہے، اور حق تعالیٰ نقص اور عیب سے پاک ہے۔ اس تفصیل