عزیزم ! السلام علیکم ورحمۃاﷲ وبرکاتہٗ
میاں تم نے تو مناظرہ ٹھان دیا، سامنے کی بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔ حدیث جس کا تم نے حوالہ دیا ہے اس میں محبت اور قبول کا ذکر ہے، یعنی وہ بندہ لوگوں کے درمیان اور خدا کے نزدیک محبوب و مقبول ہوجاتا ہے، قلوب میں اس کی محبت جاگزیں ہوجاتی ہے۔ اس کے برخلاف جس حدیث کا میں نے حوالہ دیا تھا،اس میں اشارہ بالاصابع اور مدح وتعریف میں غلو واغراق کا مفہوم ہے،ان دونوں میں کوئی تخالف نہیں ہے، بالکل ظاہر ہے کہ محبوبیت عامہ اور مشار الیہ ہونے میں کوئی تلازم نہیں ہے، کتنے لوگ محبوب ہوتے ہیں ،مگر گمنام ، اور کتنے مردود ومطرودہوتے ہیں ، لیکن ان کی شہرت آسمان سے باتیں کرتی ہے۔ میں نے جو لکھا کہ تمہاری محبت سے میرا دل لبریز ہے۔ اس میں بڑے القاب پر کیا دلیل ہے، مومن صالح کی محبت تو خود محبت کرنے والے کی خوش نصیبی ہے، اس کا بڑے آداب والقاب سے کوئی تعلق نہیں ، اور یہ نہ سمجھو کہ کوئی بندہ مقبول ہوجائے گا تو خدائے بے نیاز کی پرسش وسوال سے بچ جائے گا۔ آخر انبیاء سے بڑھ کر مقبولیت کس کی ہے، لیکن سورۂ مائدہ کا آخری رکوع پڑھو اور دیکھو کہ حضرت عیسیٰں سے کتنا سخت سوال ہوگا ۔ اور تفسیروں میں ہے کہ حضرت عیسیٰں پر اس وقت کیا عالم طاری ہوگا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ہیبت کی وجہ سے حضرت عیسیٰ ں کے ہر بنِ موسے خون کا فوارہ چھوٹ پڑے گا۔ شہرت و سر بلندی صرف خدا کو زیب دیتی ہے، اس وصف خاص میں کوئی اور شریک ہوتو اس کے لئے خطرہ ضرور ہے۔ خواہ حق تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے وہ خطرہ بالکلیہ دور فرمادیں ،یا کسی قدراحساس دلاکر اسے بخش دیں یا پھر مبتلائے قہر و غضب کریں ۔ وہ ہر طرح مالک ومختار ہیں ۔ اسی طرح مدح وثنا ،حمد وکبریائی بھی اسی ذات عالی صفات