لایعنی اور مہمل ، بلکہ ذہن ودماغ کے لئے خطرناک حد تک مضر مشغلوں میں مبتلا کردیا ہے پھر علم کا اور کتابوں کا ذوق بنے تو کیونکر بنے ۔
یہ حالات بڑے مایوس کن ہیں ، لیکن تم دیکھو کہ انھیں مایوس کن حالات میں کچھ قابل قدر اور لائق تقلید علماء مدرسوں کے افق سے طلوع ہورہے ہیں یا نہیں ؟ اگر تم یہ کہو کہ اب کو ئی نہیں ہورہا ہے تو یہ خلافِ واقعہ بات ہے ، اور اگر تم کہو کہ اب بھی قابل قدر علماء کا ظہور ہورہا ہے……گو ایسے لوگ قلیل ہیں …… تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس زمانہ میں بھی اچھے علماء کو تیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے ، اس حال میں تم یہ غور نہ کرو کہ زمانہ ناموافق ہے ، پہلے یہی زمانہ آسمان پر تھا ، اب زمین پر ہے ، بلکہ دیکھو کہ تمہارے اندر اﷲ تعالیٰ نے تحصیل علم کی جو صلاحیت ودیعت فرمائی ہے اس کا کتنا حصہ تم نے اہتمام سے استعمال کیا ہے ، ان اکابر کی تاریخ اور ان تذکروں کے پڑھنے سے خود احتسابی کا سبق ملتا ہے ، زمانہ کی رفتار نہ دیکھو اپنے اوپر نگاہ رکھو ، اور پھر جہاں کوتاہی اور خامی نظر آئے ، ان کی اصلاح اور تلافی کرو۔
تم نے نظام الاوقات کی بات کی ہے ، تم اس الجھن میں نہ پڑو ، تمہارا نظام الاوقات صرف پڑھنا ہے ، سارا وقت پڑھنے کے لئے ہے ، درمیان میں بشری ضروریات حائل ہوتی رہتی ہیں ، انھیں بقدر ضرورت ان کا حق عطا کرو اور بس پڑھنے میں لگو ۔ نماز تلاوت یہ سب مقاصد میں داخل ہیں ، کھانا ، سونا ، تفریح کرنا ضروریات وحاجات میں ہیں ، ان کے ساتھ بقدر ضرورت والا معاملہ ہو ، پڑھنا اور مکرر پڑھنا ، ذہن میں محفوظ رکھنا ، سوچنا تو علم کو سوچنا ، بات ہوتو علم کی بات ، فضول کلام ، ہنسی کھیل ، گپ شپ سے احتراز بنیادی بات ہے ، جتنی طاقت اﷲ نے دی ہے اس کے استعمال کے مکلف ہو ، تم نے استعمال کیا ؟