میں جہاں طالب علم مدرسہ میں داخل ہونے کا مقصد بھی کما حقہٗ نہیں سمجھتے ، آخر اس کا ذکر حضرت الاستاذ مدظلہٗ سے کیا ، تو انھوں نے وہ سوال کا پرچہ مجھ سے لے لیا ، اوراس کا درج ذیل جواب مرحمت فرمایا ۔( ضیاء الحق خیرآبادی )
عزیزم! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
کچھ کتابوں کے مطالعہ کے بعد تم نے جو تاثرات لکھے ہیں ، عزیزم مولانا ضیاء الحق سلّمہ کے واسطے سے ان کا مطالعہ میں نے کیا ، اور ساتھ ہی میں نے ان سے کاپی مانگ لی کہ اس کا جواب میں لکھتا ہوں ۔
عزیزم! تم نے لکھا کہ ’’ لیکن جب میں اکابر کے زمانۂ طالب علمی کا حال پڑھتا ہوں ، اور اپنی طالب علمی کے زمانے کو دیکھتا ہوں تو زمین وآسمان کا فرق دیکھتا ہوں ، کافی کوششوں کے بعد بھی کتابوں کے ساتھ وہ محبت اور لگاؤ نہیں پیدا ہورہاہے، اس کا کیا طریقۂ کار ہے ؟‘‘
میرے عزیز! تمہاری بات صحیح ہے ، جن اکابر کا تذکرہ تم نے پڑھا ہے ، ان کے زمانے اور ہمارے زمانے میں بہت فرق ہے ، ان کے دور میں علم مطلوب تھا ، ہمارے زمانے میں معاش مطلوب ہے ، وہ لوگ کمال کے جویا تھے ، اب لوگ مال کے جویا ہیں ، اس وقت طالب علموں کاعام ماحول علمی سرگرمیوں کا تھا ، تو جتنے لوگ حصول علم کی طلب میں نکلتے تھے ، ان میں کامیاب لوگوں کا تناسب زیادہ تھا ، یہ دور معاشی سرگرمیوں کا ہے ، طلبۂ علم ، علمی میدان میں پچھلا تناسب کھوچکے ہیں ۔
اس مخالف ماحول میں ، اس ناموافق دور میں اکثریت طالب علموں کی بجھی بجھی سی رہتی ہے ، نہ دلوں میں حوصلہ ہوتا ، نہ آرزوؤں میں گرمی پیدا ہوتی ، پھر دار الاقاموں کے عجیب وغریب مرکب اور پیچیدہ ماحول نے طالب علموں کو بہت سے