ساتھ عمل نہیں ہوپاتا، یہ کمزوری ایسی ہے کہ کسی حال میں طبیعت کو قرار نہیں حاصل ہوگا، کوشش کرو کہ جس بات کاارادہ کرواسے مضبوطی اور استقلال کے ساتھ عمل میں لاتے رہو، ورنہ کچھ حاصل نہ ہوگا۔ مجھے تم سے جو الجھن رہی ، اسی بے ہمتی اور کمزوری کے باعث رہی ، جو بھی کام کرواستقلال کے ساتھ کرو، ہمت ہارے تب بھی استقلال کو ہاتھ سے جانے نہ دو، بس ہمت بہت ضروری ہے ۔ اور سنو! لفاظی مت کرو، مجھے خط لکھنے میں ادب نہ جھاڑو، بڑوں سے ایسی لفاظی بے ادبی ہے ، اور اس میں غلطیاں بھی بہت ہوتی ہیں ، اس لئے عبارت سیدھی سادی لکھو ، میں نے پچھلی غلطیاں جو مجھ سے متعلق رہی ہیں سب دل سے معاف کردی ہیں ، ان کی فکر نہ کرو، اور اﷲ کے حضور سچی توبہ کرو، اور جان بوجھ کر ان غلطیوں کا اعادہ نہ کرو، اگر غلطی سے ہوجائیں ، تو توبہ کرنے میں تاخیر مت کرو، اور اپنی طبیعت کا اتنا تفصیلی جائزہ مت لو ۔ اجمالاً اﷲ کے سامنے توبہ کرلو اور اپنے کام میں لگو، اس خط کے ملنے کے بعد پھر مجھے خط لکھواور لفاظی سے برکنار اپنا حال لکھو۔ دعا کرتا ہوں ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۱۹؍ رجب ۱۴۲۶ ھ
٭٭٭٭٭
ایک طالب علم نے مجھ سے سوال کیا کہ وہ کون سے طریقے ہوسکتے ہیں جن کو اختیار کرنے کے بعد ہمارے اندر بھی حصول علم کا جوش وجذبہ اور عزم ولولہ پیدا ہوجائے جو ہمارے اسلاف عظام کا طرۂ امتیاز تھا ؟ یہ سوال پڑھ کر میں سخت متحیر ہوا کہ آخر اس کا کیا جواب دوں ؟ اس لئے کہ جن ریاضات ومجاہدات اور یکسوئی وانہماک کی ضرورت ہے ، اس کو صرف الفاظ میں کیونکر سمجھاؤں ، خاص طور سے اس علم کش ماحول