تعلق اسی ذات سے وابستہ رہنا چاہئے ، یہ تمنا کہ حالات موافق ہوجائیں فضول ہے ، خود کو حق تعالیٰ کی موافقت ومتابعت پر آمادہ رکھنا چاہئے ، ہمارا نفس ان کی مخالفت نہ کرے ، پھر خواہ حالات کتنی ہی مخالفت کریں ، پرواہ نہیں ۔
عزیزم ! یہ میرے منتشر خیالات ہیں ، انھیں پڑھ لو ، ممکن ہے کوئی کام کی بات نکل آئے ، مجھے بس یہی سبق یاد ہے ، یہی سبق اپنے لوگوں پڑھاتا ہوں ، اسی پر خود رہنا چاہتا ہوں ، اور دوستوں کو بھی اسی پر قائم دیکھنا چاہتا ہوں اور بس ، دنیا ، متاعِ دنیا اور مناصب دنیا ہیچ در ہیچ ہیں ، قطعاً قابل اعتبار نہیں ، خدا کی رضاء ، جنت کا حصول ، جہنم سے نجات یہی اصل ہے ، اور اس کی کنجی متابعت شریعت وسنت ہے اور محبت وعشق الٰہی ، اور کیا عرض کروں ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۲۹؍ محرم الحرام ۱۴۰۹ھ
٭٭٭٭٭
یہ مکتوب مدرسہ شیخ الاسلام کے ایک طالب علم کے نام لکھا گیا
جو اس وقت دار العلوم دیوبند میں زیر تعلیم تھے۔
عزیزم السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
اﷲجانے تمہارا یہ خط کب کا میرے پاس رکھا ہوا ہے ، تم نے بھی کوئی تاریخ نہیں لکھی ہے، ابھی اچانک میری نظر پڑی ، تو سوچا تاخیر سے سہی جواب تو لکھ دوں ۔ سنو! تمہاری طبیعت میں انفعال توبہت ہے، مگر استقامت اور قرار نہیں ہے، اور محض انفعال مفید نہیں ، جب تک انفعالی تاثر پر قرار نہ ہو ، مثلاً غلطی پر ندامت تمہیں جلد ہوتی ہے مگر ندامت کے تقاضے پر یعنی اس غلطی کے ترک کرنے پر قوت اور استقامت کے