کی نگاہ جمالی ، اس تدبیر سے وہ اعدام کے متواتر حملوں سے بچ گیا ، ورنہ ساری دنیا اسی وجود وعدم کے جھولے میں ہچکولے کھارہی ہے ،ا س کی تدبیر کثرتِ ذکر ہے، جس کی تمہیں ابھی فرصت نہیں ہے ، تاہم اپنا کچھ وقت فارغ کرکے روزانہ خلوت میں یادِ الٰہی کرنی چاہئے۔
حاصل زندگی صرف وہی لمحہ ہے جو پروردگار کی یاد میں گذر جائے ، جو وقت علم کی تحصیل میں صرف ہوتا ہے ، وہ بھی بالواسطہ ذکر ہی میں گذرا ، لیکن بالواسطہ ہونے کی وجہ سے اس میں دوسرے خرخشے بھی شامل ہوجاتے ہیں ، اس لئے ضروری ہے کہ چوبیس گھنٹہ میں گھنٹہ آدھ گھنٹہ ایساوقت بھی مقرر کیا جائے جو بلا واسطہ ذکرِ الٰہی اور یادِ محبوب میں صرف ہو ۔ دنیا کی سب مشغولیات فانی ہیں ، دنیا خود فنا کے گھاٹ اترنے والی ہے ، پھر ہروہ چیز جو اس سے نسبت رکھتی ہے وہ باقی کیونکر رہ سکتی ہے ، اور ذاتِ خدا وندی ازل وابد کو محیط ہے ، اس پر فنا کا کوئی شعبہ طاری نہیں ہے ، وہ وجودِ مطلق ہے ، وہ حی وقیوم ہے ، وہ قائم ودائم ہے ، لاتاخذہ سنۃ ولانوم ہے ، پھر جس چیز کو اس کے ساتھ نسبت ہوجائے گی اس کے باقی ودائم رہنے میں کیا شک ہے ؟ پس انسان اگر بقائے دوام چاہتا ہے تو اپنی ساری مشغولیت کی نسبت دنیا سے منقطع کرکے اسی ذاتِ حی وقیوم کے ساتھ جوڑلے ، پھر کوئی چیز اسے باقی رہنے سے روک نہیں سکتی ،ا س کی موت بھی زندگی کا نیا عنوان ثابت ہوگی۔
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
پس میرے عزیز! حالات موافق ہوں یا مخالف ، ہوا تند وتیز ہو یا نرم ، صحت وتندرستی ہو یا امراض واسقام ، مصائب وآلام ہوں یا راحت وآرام ، ہر حال میں دل کا