کی جانب مائل ہو اسے مجبور کرکے اس کام کے پورا کرنے پر لگایا جائے ، رفتہ ر فتہ طبیعت اس کی خوگر ہوجائے گی ، لیکن یہ خوگری ہفتہ دو ہفتہ میں قائم نہ ہوگی ،ا س کے لئے ایک مدت درکار ہے ، اہم تدبیر یہی ہے ، ابتداء ً جب کسی کام کا شوق نو آموز طبائع میں پیدا ہوتا ہے تو اس کی دھن میں آدمی بہت آگے بڑھ جاتا ہے ، پھر جب طبیعت پلٹتی ہے تو یکایک سرد ہوجاتا ہے ۔ لِکُلِّ شِرَّۃٍ فَتْرَۃٌ ، اسی لئے میں نے لکھا ہے کہ جس قدر شوق ہو ، اس سے کم کام سے شروع کیاجائے ، پھر رفتہ رفتہ اس کو ترقی دی جائے ۔
رہی یہ بات کی دین کی محبت کی راہ میں حوادث اور حالات کیوں روڑا بن جاتے ہیں ، تو میرے عزیز! یہ عین فطرت ہے ، دنیا موافق حالات سے عبارت نہیں ہے، ناموافق حالات اس میں بکثرت ہیں ، اتنی بہتات سے ہیں کہ اگر نظر غور سے دیکھو تو ناموافق حالات کے ہجوم میں موافق حالات شاذ بلکہ معدوم محسوس ہوں گے ، کوئی موافق حال تمہیں ایسا نہ ملے گا جس کے دامن کا گوشہ کسی ناگوار تلخی کے ساتھ بندھا ہوا نہ ہو ، یہ دنیا عدم سے ابھر کر وجود میں آئی ہے اور پھر دوسرے سرے پر عدم کی ظلمات اس کا احاطہ کئے ہوئے ہیں ، بھلا جس کی نمود عدم سے ہو اور دوبارہ عدم کی گود میں پہونچنے والی ہو ، اس کے وجود کی ناپائیداری محتاجِ بیان ہے ؟ بس اعدام کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو وجودِ انسانی پر گذرتا رہتا ہے ، اسی سلسلۂ کارزار میں رہ کر انسان کو اپنی دائمی حیات کے لئے جدوجہد کرنی ہے ، یہی ابتلاء ہے ،ا سی کا نام امتحان ہے ، یہ امتحان حق تعالیٰ نے انسان کے اوپر مقرر کیا ہے ، اب جس نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ہے وہ ان اعدام سے منہ موڑ کر وجودمطلق کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے ، یعنی اس نے سب سے صرفِ نظر کرلیا خواہ وہ موافق حالات ہوں یا ناموافق ، بس ایک خدا کی جانب دل