روتی تو دوسری بھی رونے لگتی ، ایک بیمار پڑتی تو دوسری بھی اسی مرض میں گرفتار ہوجاتی پھر دونوں ایک ساتھ ٹھیک ہوجاتیں ، حتیٰ کہ پیشاب پاخانہ بھی دونوں بیک وقت کرتیں ، چھ ماہ تک بڑی دقت رہی ، بیوی اپنے میکہ میں کسی طرح وقت گزارتی تھی ، میری ابتدائی مدرسی کا زمانہ تھا ، میرے ساتھ نہ تھی ، پھر اﷲ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو اٹھالیا ، اور دوسری اس کے فراق کے صدمے سے ادھ موئی ہوگئی ڈیڑھ سال تک اس کی یہ کیفیت رہی کہ ہر دیکھنے والا بے اختیار یہی کہتا کہ بس چند دن کی مہمان ہے ، لیکن ا ﷲتعالیٰ نے کرم فرمایا ، ڈیڑھ سال کے بعد اس کو صحت ہونی شروع ہوئی ، اور چند سالوں میں مکمل صحت یاب ہوگئی ، اور اب بحمد اﷲ اپنی ماں کی دست وبازو بنی ہوئی ہے ۔ بہت مشکل پڑی تھی ، مگر ا ﷲتعالیٰ نے اس کو اس طرح گزار دیا کہ اب یاد کرنے سے بھی اس وقت کی پریشانی یاد نہیں آتی ۔ اس کے دو سال کے بعد دو بچے اکٹھا پیدا ہوئے ، اہلیہ پر ایک گھبراہٹ مسلط ہوگئی کہ ان کی پرورش کیسے ہو گی ، اور اتفاق ایسا کہ ان دونوں کی باری میں ماں کا پستان بھی خشک تھا ، کمزوری کی وجہ سے بچوں کی نانی نے کہا کہ ایک بچے کو مجھے دیدو ، جب اوپری دودھ سے پرورش کرنی ہے تو ایک کو میں پال لوں گی ، ان کی کوئی چھوٹی اولاد نہیں ہے ، اس لئے اور بھی خواہش تھی ، مگر میں نے ماں کی مامتا کا جوش دیکھا کہ سب تکلیف جھیل لینا گوارا ، مگر بچوں کو نگاہوں سے اوجھل کرنا گوارا نہیں ہوا ۔ اس وقت میں بھی اور بچے بھی الہ آباد میں تھے ، پھر اﷲ تعالیٰ نے ان دونوں کی پرورش آسان کردی ۔ ان دونوں کا معاملہ پہلے والوں سے بالکل الگ تھا،ان دونوں کا ہر کام الگ الگ ہوتا تھا ، ایک مرتبہ حضرت جامی صاحب مرحوم نے ارشاد فرمایا کہ جب کبھی دونوں بچے ایک ساتھ روئیں تو مجھے اطلاع کریں ، مگر شاید اس کی نوبت ہی نہیں آئی ۔ اب دونوں بحمد اﷲ ۱۳؍۱۳؍ سال کے ہوگئے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ