ہے ، ایسے دل اور ایسی زبان سے جو دعا نکلے گی ، اس کی رفتارکیسی اور اس کی رسائی کہاں تک ہوگی ، یہ محتاجِ بیان نہیں ہے ، لیکن اس کے باوجود مانگنے سے باز نہیں آتا ۔ بے لیاقت دل اور بے طہارت زبان سے جو کچھ بن پڑتا ہے عرض معروض کرتا ہوں ، آپ نے مکتوبِ گرامی میں ایک شعر لکھا ہے ، ؎
درکف شیر نر ے خونخوارۂ جز بہ تسلیم ورضا کو چارۂ
اس شعر کی معنویت کو جب آپ کی کیفیات قلبیہ پر …… جس کاکچھ اندازہ آپ کے مکتوب سے ہوتا ہے ……منطبق کرتا ہوں تو بے اختیارآپ کے مقام بلند اور مرتبۂ رفیع کا احساس ہونے لگتا ہے ،اس قدر متواتر اور پیہم صدمات کا ورود اور پھر اس پر تسلیم ورضا کی ثبات قدمی ، واقعہ یہ ہے کہ یہ خاصانِ خدا ہی کا حصہ ہے ۔ دل کی رقت وگداختگی کا یہ عالم ہے کہ دوسروں کی بے چینی سے بیقرار ہونے لگتا ہے ، لیکن اس کے باوجود صبر واستقامت اور تسلیم ورضا کا شیوہ ہاتھ سے چھوٹتا نہیں ، یہ حق تعالیٰ کااتنا بڑا کرم اور انعام ہے کہ اس کا شکر ادا کرنا مشکل ہے ، غالب کا مصرعہ ہے کہ: دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر
جس کا جیسا ظرف ہوتا ہے ، اسی کے بقدر اس کا امتحان ہوتا ہے ۔ اس سلسلے میں آپ خود دانائے راز ہیں ، میں طفل نادان کیا لکھوں ؟ لیکن آپ کی کرم فرمائیوں نے جرأت بخشی ہے ، اس لئے دل میں جو کچھ آتا چلا جارہا ہے لکھے جارہا ہوں ۔
عزیزہ ذاکرہ سلمہا کے یہاں دو بچے پیدا ہوئے ہیں ،ا س کی وجہ سے پریشانی کا ہونا قدرتی اور فطری امر ہے ، لیکن ا ﷲ تعالیٰ مسبب الاسباب ہیں ، میرے گھر دو بار جڑواں بچے پیدا ہوئے ، پہلی بار دو بچیاں پیدا ہوئیں ، ان دونوں کا حال عجیب تھا ، ان کا ہر کام ایک ساتھ ہوتا تھا ، ایک ساتھ سوتیں ، ایک ساتھ جاگتیں ، ایک