میری کوئی حقیقت تو نہیں ہے ، لیکن آپ کیلئے ، آپ کے متعلقین کے لئے دعا کرتا ہوں اور اس بات کی بھی کہ مرحومہ ہمشیرہ صاحبہ کی حق تعالیٰ مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۶؍ رجب ۱۴۰۶ھ
٭٭٭٭٭
مخدومی ومعظمی حضرت ماسٹر صاحب !
زید مجدکم وعافاکم اﷲ من جمیع البلیات
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٰ
مزاج گرامی!
میرے خط ارسال کرنے کے کئی روز بعد آپ کا مکتوبِ گرامی موصول ہوا تھا ، اس وقت بعض دوسری مشغولیات حارج تھیں ، نیز یہ بھی خیال تھا کہ میرے خط کا جواب بھی آپ ضرور لکھیں گے ، یہ جواب بھی آلے تو میں خط لکھوں ، امید وانتظار کے مطابق بحمد اﷲ دوسرا مکتوب بھی پرسوں ۹؍ جمادی الاخریٰ کو مل گیا ، لیکن خط جس قسم کے مضمون پر مشتمل تھا میں اسے پڑھ کر سکتے میں آگیا ۔ آپ کے دردِ دل نے میرے دل پر اتنا اثر کیا کہ اس وقت سے اب تک محسوس ہوتا ہے جیسے بادل کی شکل میں غم میرے دل پر منڈلا رہا ہو، مجھے درد والم سے ایک طرح کا ناقابل بیان کیف حاصل ہوتا ہے ، لیکن آپ کے احوال موجودہ کو سوچتا ہوں تو دل امنڈنے لگتا ہے ، دل تو ہمہ وقت دعا میں مشغول ہے ، زبان بھی بار بار دعائیں دہراتی رہتی ہے ، کاش میری دعاؤں کو رسائی حاصل ہوتی ، لیکن غور کرتاہوں تو نہ دل میں کوئی لیاقت ہے ، اور نہ زبان میں طہارت