یا یہ بات ہے کہ بعض بعض مخلوقات حق تعالیٰ کی تجلی خاص کا مہبط ہوتی ہیں ، جیسے عالم دنیا میں خانہ کعبہ ، بیت المقدس ، کوہِ طور وغیرہ، اور عالم آخرت میں عرشِ الٰہی ، کرسی اور سدرۃ المنتہیٰ وغیرہ ، ان چیزوں کو اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص نسبت حاصل ہے ، ان کی طرف پہونچنے والا بے اختیار یہی تعبیر کرتا ہے کہ وہ اﷲ کے پاس پہونچ رہا ہے ، اعمال صالحہ اور کلم طیب ، سدرۃ المنتہیٰ تک پہونچتے ہیں ، رسول اﷲ ا سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگئے گئے ، سدرۃ المنتہیٰ کا جانب فوق ہونا متعین ہے تو یہ جہت اﷲ تعالیٰ کے لئے نہیں ہے بلکہ اﷲ سے خصوصی نسبت رکھنے والی مخصوص مخلوقات کے لئے ہے ۔
مجھے امید ہے کہ اس مختصر گزارش سے اطمینان ِ خاطر ہوجائے گا ، اگر کوئی خاص اشکال محسوس ہوتو لکھو ، مگر اﷲ کی ذات وصفات کی بحث نازک ہے ، اور تحریر میں لانا نازک تر ، اس کے لئے اجمال ہی مناسب ہے ، عالم شہود کا خوگر عالم غیب کی گرہ کشائی نہیں کرسکتا ، پس یہی کافی ہے کہ آمنت باﷲ کما ھو باسمائہ وصفاتہ ، عقائد کیلئے عقیدۃ الطحاویہ پڑھو ، اس کی شرح بھی غنیمت ہے ، مگر مکمل قابل اعتماد نہیں ہے ۔
علامہ شبلی کی’’ الکلام‘‘ کے بجائے مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی کی ’’علم الکلام ‘‘ دیکھو ۔ میں الحمد ﷲ خیریت سے ہوں ، تمہارے لئے دعا کرتا ہوں ، البتہ اس کا خیال رکھو کہ ایک خط میں ایک ہی سوال لکھو تو جواب میں سہولت رہے گی ۔
والسلام
اعجازاحمد اعظمی
۲۵؍ محرم ۱۴۱۷ھ
٭٭٭٭٭