اس کہ کے اسباب ِ عادیہ کی طرف اس کو منسوب کریں ، اور اس کی عام علت کے ساتھ اسے مربوط کریں ۔ اس کو خالص خدا کے حضور پہنچا کر اس کی توجیہ کریں ، یہ اسباب جن پر آدمی اپنی نگا ہ محدود کرلیتا ہے یہ خود دوسرے اسباب وعلل سے ناشی ہوتے ہیں ، آخری علت حق تعالیٰ کا تصرف وارادہ ہے ، اگر کوئی آدمی اول وہلے میں وہیں پہونچ جائے تواس کے ایمان میں ہر وقت اضافہ ہوتا رہے ۔ یہی وہ تفکر ہے جس کے بارے میں حدیث میں وارد ہے کہ یہ ستر برس کی عبادت سے بڑھ کر ہے ، البتہ اس میں ایک شرط ہے وہ یہ کہ اﷲ تعالیٰ سے محبت ہو ، اس کے تصرفات پر اعتراض وانکار نہ ہو اور اس یقین کے ساتھ ان پر غور کرے کہ جو کچھ ہے وہ اس کارخانۂ عالم کے عین مطابق اور حکمت الٰہیہ کے عین موافق ہے ۔ تم کہوگے کہ دنیا میں بہت سے وقائع ایسے سرزد ہوتے رہتے ہیں جن کی کوئی معقول توجیہ نہیں ہوتی میں کہوں گا کہ اس وقوعہ کو پوری کائنات کے ماحول میں رکھ کر جب دیکھوگے تو اس کی مصلحت وحکمت اسی طرح روشن نظر آئے گی ، جس طرح آفتاب نصف النہار چمکتا ہے ، ہاں یہ صحیح ہے کہ میری اور تمہاری نظر قاصر ہے ، کائنات کے پورے ماحول کا چونکہ یہ احاطہ نہیں کرپاتی ، اسلئے ہر وقت کوئی نہ کوئی جز فوت ہی رہتا ہے ، جس کی وجہ سے آدمی کو خلش ہوتی ہے ۔ تم سوچو خالق ِ کائنات جس کی نگاہ ِ عام میں اس عالم کا اول وآخر اور ذرہ ذرہ سب روشن ہے ، ہم اس کی حکمتوں کا کب احاطہ کرسکتے ہیں پس یہی کافی ہے کہ صدق دل سے اس کی حکمت وقدرت پر ایمان رکھیں ، تو اس کی برکت یہ ہوتی ہے ۔۔۔اور مجھے اس کا بارہا تجربہ ہے ۔۔۔کہ اﷲ تعالیٰ ان چیزوں کا علم کھول دیتے ہیں جن پر اس کی حکمت کا سمجھنا موقوف ہے ، یہ تو تم کو باربار تجربہ ہوتا رہتا ہے کہ ہماری عقل ایسی ناتمام ہے جو نہ ماضی کے وقائع کو ٹھیک سے یاد رکھتی ہے نہ مستقبل سے ذرہ بھر سروکار رکھتی ۔ صرف