ہوجائے ۔ اس وقت کتابیں دیکھنے کی فرصت نہیں ہے جو کچھ میرے ذہن میں ہے اختصار کے ساتھ لکھتا ہوں ۔
قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے خطاب فرمایا ہے ، اور خطاب کرنے والا ظاہر ہے کہ اپنے مخاطب کی رعایت سے کلام کرتا ہے ، اﷲ تعالیٰ نے بھی رعایت برتی ہے۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ؒ نے الفوز الکبیر میں اس کو ذکر کیا ہے ، کہ بندے جن چیزوں کو سمجھتے بوجھتے ہیں ، جو ان کے درمیان مسلمات ومشہورات ہیں ، اور جو ان کے برتنے کی چیزیں ہیں اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں انھیں چیزوں کو بیان کیا ہے ، ٹھیک اسی طرح اپنی ذات وصفات کا بیان اﷲ تعالیٰ نے اسی رعایت سے کیا ہے ، جس کو بندگانِ خدا سمجھ لیں جو ان کے محاورات ومسلمات کے مطابق ہے ، تاکہ ان کو حق تعالیٰ سے ایک جذباتی وابستگی اور تعلق پیدا ہو ۔ صفات کا تفصیل سے بیان اﷲ تعالیٰ نے اسی مصلحت سے کیا ہے کہ نفس انسانی کی اصلاح ہو اور اسے خدا تعالیٰ سے صحیح رابطہ حاصل ہو ۔ اس لحاظ سے دیکھو تو اﷲ جو کہ غیب الغیب ہے ، اس کے علوئے مرتبہ اور عظمت شان کو جب بیان کرنا ہوگا اور وہ بھی انسان سے ، جو کہ خوگر محسوسات ہے تو بجز اس کے اورکیا صورت ہے کہ علوئے مکان سے اسے تعبیر کیا جائے ، تم دیکھ لو کہ انسان اپنی تعبیرات میں عموماً علو ئے مرتبہ کو علوئے مکان سے ظاہر کرتا ہے ، حق تعالیٰ نے بندوں کی رعایت میں وہی تعبیر اختیار فرمائی اور جہاں اصل حقیقت بیان فرمائی ہے وہاں بھی بندوں کی فہم کی رعایت میں اجمال ہی کو اختیار فرمایا ہے اور لیس کمثلہٖ شیٔ کہہ کر ہر قسم کی مشابہت کے عقیدے کی جڑ کاٹ دی ہے ، پس بندوں کے لئے جب جہت ہے تو لازم ہے کہ حق تعالیٰ اس جہت کے تصور سے پاک ہوں ، اور جن آیات سے علوئے مکان معلوم ہوتا ہے وہ یا تو علوئے مرتبہ پر دلالت کرتی ہین ،