اور جیسا تم دیکھتے گئے لکھتے گئے ، بعض مرتبہ کوئی شیٔ فی نفسہ بھونڈی اور پھوہڑ ہوتی ہے، مگر مصور اس خوبصورتی سے اس کا پیکر اتارتا ہے کہ وہ خوبصورت اور بہت خوبصورت معلوم ہونے لگتی ہے ، تم نے اپنے خیالی پیکر کو بہت خوبصورت رنگ تحریردیدیا ہے، میں بھی بہت محظوظ ہوا، میرا اندازہ ہے کہ میں ایسا ہوں یا نہ ہوں مگر حق تعالیٰ نے تمہارے اندر ایسی استعداد رکھی ہے کہ اس خیالی پیکر کو واقعی صورت میں ڈھال سکتے ہو ، اور اس وقت واقعی محبوب خلائق ہوجاؤگے ۔
مشہور عالم ومحدث اور صوفی حضرت شیخ عبد الوہاب شعرانی ؒ نے اپنی ایک تصنیف غالباً ’’عہود محمدیہ‘‘ ( یہ کتاب ’’ ہم سے عہد لیاگیا ‘‘ کے نام سے حال میں فرید بک ڈپو دہلی سے شائع ہوئی ہے) میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ ’’ہم سے عہد لیا گیا ہے ہم اپنے اساتذہ ومشائخ کو علم وفضل اور بزرگی کے منتہائے کمال پر ہونے کا اعتقاد رکھیں ، اگر ہم ایسا کریں گے تو جہاں تک ہم نے حسن ظن رکھا ہوگا حق تعالیٰ کی ذات عالی سے امید ہوگی کہ اس درجہ تک ہماری رسائی ہوجائے گی ‘‘ ۔یہ بات تجربہ کی روسے سو فیصد صحیح ہے ،میں نے خوب تجربہ کیا ہے کہ جو طالب علم اپنے استاذ کا جس درجہ معتقد ہوتا ہے اور جو مرید اپنے شیخ کے بارے میں جس درجہ حسن ظن رکھتا ہے ، اﷲ تعالیٰ اسی کے بقدر اسے نوازتے ہیں ، فی زمانہ اساتذہ کے بارے میں ایسا حسن ظن تو مشکل ہے ، لیکن طالب علم کی یہ بڑی خوش نصیبی ہے کہ اسے کوئی ایک ہی استاذ ایسا مل جائے جس کے ساتھ وہ اس درجہ کا اعتقاد نباہ سکے تو ان شاء اﷲ وہ وہاں تک پہونچ جائے گابشرطیکہ وہ دوسرے اساتذہ کا حترام بجالاتا ہو ۔ اﷲ کا شکر ہے کہ تم کو ایک ایسا شخص نصیب ہواقطع نظر اس سے کہ وہ خود کچھ ہے یا نہیں ؟ بڑے اساتذہ اور بڑے مشائخ کے یہاں زیادہ باکمال لوگ اسی لئے تیار ہوتے ہیں کہ ان کے تلامذہ ومتوسلین ان