کے طبعی ادراکات ہیں ۔وہ جسمانی چیزہے ،اور عقل روحانی امر ہے ، جانور کو جو کچھ حاصل ہے بالفعل حاصل ہے ،اس پر اسے اضافہ کی صلاحیت نہیں ہے، اس کے برخلاف انسان کے علوم میں اضافہ اس میں تحلیل وترکیب اور اخذنتائج کی صلاحیت ہے ، یہی عقل ما بہ ا لامتیاز ہے ۔ میرے خیال میں اتنی بات کافی ہے ۔ مزید کچھ اشکال ہو تو لکھو ۔
(۲) جسم آٹھ اجزاء سے مرکب ہونے کی صورت یہ ہے کہ اتنی بات تو جانتے ہو کہ جسم میں تین بعد پائے جاتے ہیں ۔طول ، عرض، عمق ۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ سطح میں طول اور عرض دونوں پائے جاتے ہیں ۔ لیکن اس میں عمق نہیں پایا جاتا ۔ عمق کے تحقق کے لئے ایک دوسری سطح بھی درکار ہوگی تاکہ اس سطح سے اُس سطح تک ایک عمق پایا جائے ۔ گویا ایک سطح نیچے ہوگی اور ایک اوپر ہوگی ۔ مثلاً یہی کاغذ جس پر میں لکھ رہا ہوں ۔ اس کی ایک سطح تو یہ ہے ، جس پر یہ حروف لکھے جارہے ہیں اس سطح میں طول اور عرض ہے ، مگرعمق نہیں ہے ، عمق کے تحقق کے لئے اس کے نیچے کی سطح کو بھی شامل کرو تو عمق ہوجائے گا اب غور کرو کہ جسم کی ترکیب اجزاء لا یتجزیٰ سے ہے ، اور جسم میں یہ دونوں بعد پائے جانے چا ہیئں ، اور یہ تینوں بعد ابو علی جبائی کے خیال میں زوایا قائمہ پر متقاطع ہونے ضروری ہیں ، تو اس کے لئے سطح اول پر چار اجزاء ہونے ضروری ہیں اس کی صورت یہ ہوگی زاویہ قائمہ کی صورت یہ ہوتی ہے یہ چار زاویہ قائمہ ہیں ۔اس سطح اول میں دو بعد ہیں طول اور عرض ، ظاہرہے کہ ان دونوں بعدوں کے حصول کے لئے کم از کم چار جز ضروری ہوں گے ۔ ورنہ اگر دو جز ہوئے تو صرف طول ہوگا ۔ اور تین ہوئے تو دونوں بعدکا زاویہ قائمہ بہ تقاطع حاصل نہ ہوگا ۔ لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ صرف ایک سطح کے حصہ سے نہ تو جسم تیار ہوگا اور نہ اس میں عمق پایاجائے