کیا ہے ، عزیزم ! کیا بتاؤں کہ یہ میرے دل کا ناسور ہے ، ہمیشہ تڑپتا ہوں ، پریشان ہوتا ہوں ، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں براہ راست اقدام کی کوئی راہ مجھ پر نہیں کھولی گئی ہے ، حرمین شریفین کی حاضری میں اس ارادہ کا بھی بہت دخل رہا ہے کہ شاید وہاں سے کچھ عمل اور اقدام کا راستہ ملے ، مگر میں آنکھ کا اندھااور کان کا بہرہ اور دل کا بے بہرہ کیا ادراک کرپاتا، جیسا گیا تھا ویساہی لوٹ آیا ۔ ان حالات میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا، جس کے بعد منزل اور دور ہوجائے ، ان حالات میں میرا کام صرف ایک ہے ، وہ یہ کہ میں مردم سازی کرتا رہوں ، یعنی ایسے لوگ تیار کردوں جو دین پر مرمٹنے کا حوصلہ رکھتے ہوں ، تمہارے عزم وارادے کو معلوم کرکے مجھے نہایت فرحت حاصل ہوئی کہ یہ وہی جذبہ ہے جسے میں اپنے ہر دوست میں دیکھنا چاہتا ہوں ، تم اس جذبہ کو ایک مناسب انداز میں اپنے شاگردوں میں منتقل کرو، اور جب تک راست اقدام کی صورت نہیں نکلتی اپنی توانائی اسی میں کھپاؤ، اگر اسی میں مرگئے تو دین کی جدوجہد میں مروگے ، اور اگر کوئی راستہ منجانب اﷲ تمہارے اوپر کھول دیاگیا تو مجھے بھی بتانا کہ یہی میرے دل کی بھی آرزو ہے۔
ہاں ایک بات کو خیال رکھو ، قوم کو یا لیڈرانِ قوم کو زبان یا قلم سے کچھ نہ کہو ، یہ تنقید وتبصرہ مضر ہے ، اس سے تمہارے حوصلوں میں پستی آجائے گی ، قوم کیاکرتی ہے ، زعماء قوم کیا طرز عمل اختیار کرتے ہیں ، اس پر اس حیثیت سے نگاہ ڈالنی ہوکہ ہم اس مجموعی کاروبار جہد وعمل میں اپنا قدم کس طور پر اٹھاسکتے ہیں ، اگر اس حیثیت سے ہے،توقوم اور زعماء قوم کے اعمال وکردار کا بنظر غائر مطالعہ کرو، اور اگر صرف ان کی تحقیر وتذلیل کا جذبہ ہو یا اپنے غصے کی آگ بھڑکانا مقصود ہوتو یہ بہت زیادہ پُر خطر ہے۔ حضور نبی کریم ا کاارشاد ہے کہ من قال ھلک الناس فھوأھلکھم