ہوکر محبوبِ دلنواز بنا ہوا ہے ، صاحبزادے کو تلاش تھی ہی ، انھوں نے بالآخر باپ کو پالیا ، جب ہر ایک نے دوسرے کو پہچان لیا تو محبت کا شعلہ اتنے زور سے لپکا کہ دونوں ایک دوسرے سے بے اختیار لپٹ گئے ، پھر جب جدا ہوئے تو صاحبزادے کی روح بھی جدا ہوچکی تھی ، عجیب منظر تھا ، یہ ملنا تھا یا بچھڑنے کی تمہید تھی ،عارفین اس مسئلہ کو حل کرنے میں پریشان ہیں ، سید العارفین حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب قدس سرہٗ نے فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم ادہم کا دل بجز ایک پروردگار کی محبت کے ہر ایک تعلق سے ؒخالی تھا ، مگر جب بیٹے سے ملاقات ہوئی تو اچانک نہایت جوش وخروش سے اس کی محبت کا طوفان اٹھا ، حق تعالیٰ کی غیرت کو یہ کب گوارا تھا کہ جو دل حبِّ الٰہی کا آشیانہ بن چکا ہے اس میں کوئی غیر اتنی قوت سے داخل ہو کہ اس میں بھی مقصودیت کی شان پیدا ہوجائے ، بس یہ غیرتِ الٰہی تھی کہ بیٹا رُخصت ہوگیا ، اور اس باپ کا دل پھر خالی ہوگیا ، حق تعالیٰ حکیم بھی ہیں ، رحیم بھی ہیں ، لیکن ان کی حکمت ورحمت کے انداز سمجھ میں نہیں آپاتے ، اصحابِ معرفت حیران ہوہو جاتے ہیں بلکہ اہل معرفت کے احوال کو دیکھ دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حیرت باندازۂ معرفت بڑھتی رہتی ہے ، یہاں تک کہ آدمی سراپا حیرت بن جاتا ہے ۔
’’ مائیم وتحیر وخموشی ، آفاق ہمہ در گفتگویت ‘‘ کا منظر ہوتا ہے ، آپ کے دل پر نہ جانے کیا کیا کیفیات گذرتی ہوں گی ، دیکھنے والے اپنے پیمانے سے ناپتے ہوں گے ، سونے کو اگر غلہ کے باٹ سے تولاجائے تو وزن کتنا ہلکا معلوم ہوگا ، حق تعالیٰ مربی ہیں ، وہ نہ جانے کیسے کیسے تربیت فرماتے ہیں ، لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے بہت تکلیفیں جھیلیں ، مگر اتنا تاثر کبھی آپ پر نہ دیکھا گیا تھا جتنا ہمشیرہ کے انتقال پر ! بیشک ایسا ہوسکتا ہے لیکن دنیا کیا جانے کہ اہل احساس کو کیا کچھ احساس ہوتا ہے ، آپ کے