ذکر کیا ہے ، ان پر بہت سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے ، تبلیغی جماعت کا طریقۂ کار اشاعت دین کا محض ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے ، لیکن ان وسائل کو اتنی سختی اور پابندی کے ساتھ برتا جاتا ہے کہ ان میں کسی طرح کا ردوبدل گوارا نہیں کیا جاتا ، اور انھیں اصول کا نام دے کر بالکل مقاصد کی طرح ان کی بجاآوری کی جاتی ہے ، اور ہر ایک کو اس میں شریک ہونے کی دعوت دی جاتی ہے ، اور ان کے خلاف کرنے والوں ، یا ان کے طریقہ سے الگ رہنے والے کوموردِ ملامت بنایا جاتا ہے ، حالانکہ وسائل وذرائع کی یہ شان ہرگز نہیں ہوتی ، یہ شان تو عباداتِ مقصودہ کی ہوتی ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے یہ مخصوص اعمال واشغال جو جماعت میں برتے جاتے ہیں ، انھوں نے مقاصد کا درجہ اختیار کررکھا ہے ، اور بذاتِ خود انھیں کارِ ثواب سمجھ کر کیاجاتا ہے ، ایسی صورت میں ان کے بدعت ہونے خیال ہوتا ہے ، آنکھوں پر انگلی پھیرنا تو بدعت نہیں ہے ، لیکن یہ امورِ تبلیغیہ جنھیں عبادت سمجھ کر کیاجاتا ہے اور ان کے خلاف کو خواہ اس میں کتنی ہی مصلحت ہوتو گوارا نہیں کیاجاتا ، اگر انھیں بدعت کہاجائے تو بجا ہے ، اچھی طرح غور کرلو ۔
حدیث کے اسباق شروع ہوگئے ، اس سے بڑی خوشی ہوئی ، حدیث کا سبق شروع کرنے سے پہلے سات یا گیارہ مرتبہ درود شریف رسول اﷲ ا پر دلی توجہ سے پڑھ لیا کرو ، اور جب حدیث کے الفاظ کی قرأت کی جائے تو سراپا گوش ہوکر ادب سے بیٹھ کر سنو ، اور یہ خیال رہے کہ رسول اﷲ ا کاارشاد خود آپ کی زبان سے سن رہے ہو ، ان شاء اﷲ اس کی وجہ سے غیبی فیضانِ رحمت سے مستفید ہوگے ، اور عجب نہیں کہ جب یہ کیفیت بڑھے تو دیدار سے مشرف ہوجاؤ ۔تمام احباب کو سلام کہہ دو ۔والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۲؍ ربیع الآخر ۱۴۱۳ھ