’’رُقیہ‘‘میں کوئی لفظ غیرمشروع نہ ہو، بس کافی ہے ۔ یہ بھی ایک ’’رُقیہ‘‘ ہے ، جس سے آنکھ کی روشنی کی حفاظت ہوتی ہے ، اگر کوئی شخص ہرہر ’’رُقیہ‘‘ اور اس کے ہرہر طریقہ کے لئے دلیل طلب کرے تو اس کا یہ جنون ہے ، ایسے لوگ ہرہر فقہی جزئیہ کے لئے قرآن وحدیث سے صراحت پیش کردیں ، تب سمجھا جائے ، کہ یہ مطالبۂ دلیل میں مخلص ہیں ۔
اس طرح کے اعمال جن کا تعلق جھاڑ پھونک اور ’’رُقیہ‘‘ سے ہے یہ علاج ومعالجہ کی ایک قسم ہے ، جس طرح ظاہری دواؤں سے علاج ہوتا ہے اسی طرح کلمات وحروف اور اعداد ونقوش سے بھی ہوتا ہے ، اس کو عوام کی اصطلاح میں روحانی علاج کہا جاتا ہے ، لیکن فی الحقیقت اس کا روحانیت سے تعلق نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ جو آیات برائے ’’رُقیہ‘‘ پڑھی جاتی ہیں ، ان پر تلاوت کا ثواب مرتب نہیں ہوتا ، ہر چیز کو اس کی حیثیت پر رکھنا چاہئے ، جاہلوں نے جھاڑ پھونک کو بزرگی اور تقرب خداوندی کا شعبہ سمجھ رکھا ہے ، اور خشک غیر مقلدین نے اسے بدعت قرار دے دیا ہے ، یہ دونوں فریق غلطی پر ہیں ، یہ منجملہ مباح ذرائع علاج کے ایک ذریعہ ہے اور بس! ’’رُقیہ‘‘ کے مباح ہونے پر احادیثِ صحاح دلیل ہیں ، انھیں بخاری شریف وغیرہ میں دیکھ لو۔(۱)
حضور ا کی سیرت کو بیان کرنے کے لئے محافل ومجالس کو منعقد کیا جائے تو بابرکت امر ہے ، اور ۱۲؍ ربیع الاول کو آپ کی پیدائش اور وفات دونوں سے چونکہ تعلق ہے ، اس لئے اگر اس میں قدرے اہتمام کیا جائے تو اس سے روکنا مناسب نہیں ہے ، البتہ جلوس کی شکل میں سڑکوں پر نکلنا ، غلط مضامین پر مشتمل نعتیں پڑھنا ، جھنڈااٹھانا ، اودھم مچانا معصیت ہے ۔(۲)
ہاں ایک بات رہ گئی ، تم نے پہلے سوال میں تبلیغی جماعت کے بعض اعمال کا