آنکھوں پر پھیرنا خواہ نماز کے بعد ہو ، کسی طرح بدعت نہیں ہوسکتا ۔آخر معوذتین پڑھ کر ہاتھوں پر دم کرکے بدن پر پھیرنا تو خود رسول اﷲ اسے ثابت ہے ، پھر کیا یہ اسی کے مثل نہیں ہے ، اس پر بدعت کا اطلاق کرنا بدعت سے ناواقفیت کی دلیل ہے ۔
بدعت کہتے ہیں کسی کام کو ثواب سمجھ کر مقصوداً اسے عمل میں لانا، اس تعریف میں خاص بات ثواب کے حصول اور مقصودیت کی ہے ، ثواب کے حصول کی غرض سے جو کام بھی کیا جائے گا وہ عبادات کے ذیل میں آئے گا اور مقصودیت کی قید سے وسائل وتمہیدات خارج ہوجائیں گے ۔ کوئی کام محض ذریعہ اور وسیلہ سمجھ کر بہ نیت ثواب کیا جائے بشرطیکہ وہ فی نفسہٖ مباح ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ، گو وہ حدیث وقرآن سے براہ راست ثابت نہ ہو اور وسیلہ ہونے کہ علامت یہ ہے کہ آدمی کو خوامخواہ اس پر اصرار نہ ہو ، حالات واوقات کے لحاظ سے اس میں تغیر وترمیم کو قبول کیا جاتارہے ، مثلاً لڑائی کے مختلف طریقے ،تعلیم وتعلم کے متنوع انتظامات یہ قرآن واحادیث سے صراحۃً منصوص نہیں ہیں ، مگر چونکہ مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود جہاد اور تعلیم وتعلم ہے اور یہ اس کے وسائل وذرائع ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں ہمیشہ ترمیم و تنسیخ ہوتی رہتی ہے ، پس یہ بدعات نہیں ہیں ، ہاں اگر کسی کو کسی ذریعہ وطریقہ پر اس طرح اصرار ہو کہ اس کے علاوہ کو کسی حال میں قبول نہ کرے یا اسے کافی نہ سمجھے تو البتہ اس میں بدعت کی دراندازی ہو جائے گی ۔ اسی طرح کوئی عمل ایسا ہے کہ اس کو کرنے والا دین کا کام یعنی عبادت اور باعثِ ثواب سمجھ کر نہیں کرتا تو اس پر بدعت کا اطلاق کرناکم فہمی ہے ، مثلاً یہی آنکھ والا عمل یہ تو ایک علاج ہے اور وہ بھی جسمانی علاج ، جس کا عبادت مقصودہ سے کوئی تعلق نہیں ، اس لئے اس کو بدعت کہنا آج کل کی سطحی غیر مقلدیت اور وہابیت کا شاخسانہ ہے ، حدیث سے ’’رُقیہ‘‘ کی اباحت ثابت ہے ، یہ دیکھ لینا چاہئے کہ