دوسروں کی نظر میں جاذب نظر ہوجاتے ہیں ، کتنی نگاہیں صرف اس لئے گنہگار ہوجاتی ہیں کہ کوئی شخص بن ٹھن کر سامنے آجاتا ہے ، جب یہ خرابیاں ختم ہوجاتی ہیں تو پھر ہمارے اکابر نے اسے ناپسند نہیں کیا ہے ، بلکہ بال رکھے ہیں ۔ تو یہ ناپسندیدگی آفات سے حفاظت کی خاطر ہے ، اور یہ کچھ انہونی بات نہیں ہے ، اگر کسی مفید وجائز عمل میں مضر اور ناجائز چیزوں کا انضمام ہوجائے ، اور وہ مقاصد شرعیہ میں سے نہ ہوتو اسے ترک کرنا ضروری ہوجاتا ہے ، تو بال رکھنا کون سے مقاصد شرعیہ میں سے ہے، پھر جبکہ تجربہ کی بنا پر اَمارِد اور طالب علم کے لئے اس میں بہت سی آفات ہیں ، تو لاریب انھیں روکنا ضروری ہوا۔
(۱۲) بیع ہو یا نکاح ، عربی میں دونوں کیلئے ایجاب وقبول کا لفظ ماضی ہونا چاہئے ، کیونکہ مضارع کا صیغہ مستقبل کا بھی محتمل ہوتا ہے ، اس لئے اس میں وعدہ ہونے کا احتمال ہوتا ہے ، بنا بریں وہ انشاء کے لئے مفید نہیں ہوسکتا ۔ لیکن ہدایہ میں جو یہ فرمایا ہے کہ نکاح میں ایک طرف سے مستقبل یعنی امر کا صیغہ ہو اور دوسری جانب سے ماضی کا ، تو یہ بھی جائز ہے، تو اس کے سلسلے میں سمجھ لو کہ امر کا صیغہ مثلا زَوِّجْنِیْ جو کہا گیا ہے ، یہ نہ ایجاب ہے اور نہ قبول ، یہ توکیل ہے ، اس لفظ سے دوسرا آدمی وکیل بن گیا ۔ اب جبکہ وہ کہتا ہے کہ زَوِّجْتُکَ فَلَانۃً ، یا کہتا ہے تَزَوَّجْتُکِ ،تو جانبین سے یا ایک جانب سے وکیل بن کر یہ کلام کرتا ہے ،شخص واحد نکاح میں جانبین سے وکیل یا ایک جانب سے وکیل اور خود اپنی طرف سے اصیل ہوسکتا ہے ، کیونکہ نکاح میں دونوں طرف سے وکیل بننے میں کوئی تمانع نہیں ہے ، نکاح میں وکیل صرف معبر اور سفیر ہوتا ہے ، اس پر لینے دینے کے حقوق نہیں عائد ہوتے ، اس کے برخلاف بیع میں اگر کسی نے کہا بع ھٰذا المتاع منی ، تو یہ بیع کا حکم تو ہوا، لیکن نہ ایجاب ہوا اور نہ قبول !پھر جب