مرزا کی لکھی ہوئی۔ آخری کتاب بہت مفصل ہے ، آٹھ جلدوں میں ۔
(۷) تحقیق ہوتو مسائل کے بتانے میں کچھ حرج نہیں ، اس کیلئے اصطلاحی مفتی ہونا ضروری نہیں ۔
(۸) بزرگوں کے احوال وواقعات کے لئے عربی میں ’’ حلیۃ الاولیاء‘‘ ’’صفۃ الصفوۃ ‘‘ فارسی میں ’’ تذکرۃ الاولیاء ‘‘ ’’ اخبار الاخیار‘‘ ’’ انفاس العارفین‘‘ اور اردو میں بزرگوں کے تذکرے سیرت وسوانح کی کتابیں ، جو اب بہت سی شائع ہوچکی ہیں ، ان کا دیکھنا مفید ہے ، خصوصیت کے ساتھ حاجی امداد اﷲ صاحب اور سیّداحمد شہید قدس اﷲ سرہما اور ان کے متوسلین ومنتسبین کے تذکرے۔
(۹) دعا تعویذ کا فن حاصل کرنا مناسب نہیں ہے، اگر کوئی ضرورت مند آئے تو کچھ پڑھ کر دم کردو، کچھ لکھ کر دیدو، خدا کو منظور ہوگاتو فائدہ ہوجائے گا۔ غالباً یہی علم ہے جو ہاروت وماروت کے ذریعے دنیا میں اتارا گیا تھا ، جس کے سکھانے سے پہلے وہ إنما نحن فتنۃ فلا تکفر کہا کرتے تھے، یہ فن واقعی کفران کا سبب بن جاتا ہے ، اس لئے بطور فن کے اسے سیکھنا ہرگز مناسب نہیں ، بالخصوص جو لوگ علمی مشغلہ رکھتے ہوں ان کے لئے تو یہ سخت مضر ہے۔
(۱۰) جناتوں کو مسخر کرکے کام لینا بہت خطرناک ہے ، اور اس کا جواز بھی محل نظر ہے، حاضرات کا عمل محض ایک خیالی چیز ہے ، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
(۱۱) رسول اﷲ ا کاعمل یہی ہے کہ آپ نے بال رکھے ہیں ، لیکن بال رکھنا ’’سنن ہدیٰ‘‘ میں سے نہیں ہے ، ہمارے اکابر نے بال رکھنے کو جو ناپسند کیا ہے ، وہ بچوں اور طالب علموں کے لئے ، کیونکہ ان میں زینت کا جذبہ مخفی ہوتا ہے ، خوبصورت بننے کا شوق ہوتا ہے ، پھر آدمی بناؤ سنگار میں ہی رہ جاتا ہے ، نیز لڑکے اس سے