چونکہ مخلص گشت مخلَص باز رست در مقام امن رفت وبرد دست
ہیچ آئینہ دگر آہن نہ شد ہیچ نان ِ گندمی خرمن نہ شد
پیچ انگورے دگر غورہ نہ شد ہیچ میوہ پختہ با کورہ نہ شد
پختہ گرد واز تغیر دور شو رَو چو برہانِ محقق نور شَو
چوں زخود رستی ہمہ برہاں شدی چونکہ گفتی بندہ ام سلطاں شدی
(ترجمہ)کبھی وہ صدیق کو کافر بناتا ہے،اور کبھی زندیق کو زاہد بناتا ہے٭ مخلص ہمیشہ خطرے میں ہوتا ہے،جب تک وہ اپنی خودی یعنی خواہشات اور ارادے سے پاک نہ ہوجائے٭کیونکہ ابھی وہ راہ میں ہے،اور رہزن بہت ہیں ، نجات وہی پاسکتا ہے جو خدا کے حفظ وامان میں ہے٭آئینہ ابھی صاف نہیں ہو ا ہے، وہ صاف کررہا ہے،پرندہ ابھی شکار نہیں ہوا ہے،ابھی کررہا ہے٭جب وہ پاک اور صاف ہوگیا ،تواس نے نجات پالی،مقام امن میں پہونچ گیا ،اس نے میدان جیت لیا٭پھر آئینہ بن جانے کے بعد دوبارہ کوئی لوہانہیں بنتا،گیہوں کی روٹی بن گئی تو، اب وہ کھلیان نہیں بن سکتی٭انگور پک کر پھر کچا نہیں ہوتا،کوئی بھی پکا ہوا پھر کچا نہیں ہوسکتا٭تم بھی پختہ ہوجاؤ اور تغیر سے دور ہوجاؤ،جاؤ برہان الدین محقق کی طرح سراپا نور بن جاؤ٭جب تم نے خودی سے نجات پالی،تو مجسم برہان الدین بن گئے،جب تم نے اپنی غلامی کا اقرار کرلیا ،تو بادشاہت حاصل کرلی۔
یہ مضمون جسے مولانا روم ؒ نے سمجھایا ہے، اسے رضا بالقضا کہتے ہیں ۔ایک مومن کی بڑی سعادت یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو حالات پیش آئیں ،مخالف ہوں یا موافق ،ان پر دل سے راضی رہے،اور اس سلسلے میں اﷲ کا جو حکم ہواسے پورا کرے،لیکن اپنے نفس کے واسطے نہ پورا کرے،اس میں دھوکہ ہوتا ہے ،مثلاً کوئی حال ایسا ہے کہ اس میں امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کاشریعت کی طرف