جتنا مدرسے کی قلیل تنخواہ سے ہوجاتا ہے۔ تم تو دلجمعی اور اطمینان کے ساتھ محض اﷲ کی رضا کیلئے علم دین کی خدمت کرو۔ اور مخلوق سے کوئی سوال نہ کرو ،نہ ہی اس کی شکایت کرو،مخلوق کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔اﷲ تعالیٰ سے بس دعا کرو۔دعا مومن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔اﷲتعالیٰ سب کی دعائیں سنتے ہیں ۔اور شکایت سے ناراض ہوتے ہیں ،کچھ فائدہ نہیں حالات سے ناراض ہونے کا ۔بس دل سے راضی ہوجاؤ اور خوش مزاجی سے کام کرو ، اپنے قلبی اور باطنی احوال کو درست کرو۔اخلاق کی اصلاح کرو ۔مخلوق کو نفیاً واثباتاً دل میں جگہ نہ دو۔پھر دیکھتے جاؤ کہ اﷲ تعالیٰ کیسا حالات کو بدلتے ہیں ،اس سلسلے میں میری تصدیق کرو۔ اور کوئی وسوسہ دل میں نہ لاؤ۔ میں نے تمہارے حالات سے متأثر ہوکر مولانا رومؒ سے مشورہ کیا کہ کیا جواب دینا چاہئے۔ مثنوی شریف کھولی،تو یہ اشعار نکلے۔
ایں جہاں چوں خس بدست باد غیب عاجزی پیشہ گرفت از داد غیب
گہ بلندش می کندگاہیش پست گہ درستش می کند گاہے شکست
گہ یمینش می برد گاہے یسار گہ گلستانش کند گاہیش خار
گہ بہ بحرش می برد گاہیش بر گاہ خشکش می کند گاہیش تر
دست پنہان وقلم بیں خط گزار اسپ در جولاں وناپیدا سوار
تیر پرّاں بیں وناپیدا کماں جانہا پیدا وپنہاں جانِ جاں
تیر را مشکن کہ ایں تیرِ شہی ست نیست پرتابی ز شست آگہی ست
مَارَمَیْتَ إذْ رَمَیْتَ گفت حق کارِ حق بر کارہا دارد سبق
خشم خودبشکن تو مشکن تیر را چشم ِخشمت خوں شمارد شیررا
بوسہ دہ بر تیر و پیش ِ شاہ بر تیر خوں آلودہ از خون تو تر