صحیح ہے؟اگر ذرا غور کروگے تو اندازہ ہوگا کہ ان میں سے کسی کا جواب اثبات میں نہیں ہے،پھر ان حالات کو کون پیدا کرتا ہے؟ظاہر ہے خالق ایک ہی ہے،وہی حالات کو پیدا کرتا ہے ،پھر ظالم کا اطلاق کس پر ہوا؟ آدمی حالات سے لڑتا ہے ،مگر کامیاب نہیں ہوتا اس کے نتیجے میں وہ جھنجھلاہٹ،غم وغصہ،شکایت و یاس،اور حسرت و فریاد کا مجموعہ بن کر ر ہ جاتا ہے۔اسی فریاد اور شکایت کا نام وہ ہمت و حوصلہ رکھتا ہے، اور سمجھ لیتا ہے کہ میں حالات سے لڑ رہا ہوں ،حالانکہ یہ تو اس کی شکست ہے،جب اس نے حالات کی شکایت کی توگویاہزیمت کا شکار ہوا۔
تم حالات سے بہت لڑ لئے،اپنا سارا دم خم صرف کردیا ۔ لیکن بات وہیں کی وہیں رہی، جہاں پہلے تھی، معلوم ہوا کہ کوئی اور غیبی طاقت ہے جو تم کو وہیں رہنے پر مجبور کررہی ہے،جہاں تم ہو۔ اس لئے اب میری قطعی رائے یہ ہے کہ تم لڑائی سے دستبردار ہوجاؤ،صلح کرلو۔اور غیبی طاقت نے جہاں تم کو پہونچا دیا ہے ، اس پر دل سے راضی ہوجاؤ۔ والدین نے تم کو الگ کردیا ،اس پر اﷲ کا شکر ادا کرو ، یہ مصیبت نہیں ہے،عین مقصود ہے۔یہ تو پہلے ہی ہوجانا چاہئے تھا،تمہاری تقدیر کوکوئی تم سے الگ نہیں کرسکتا۔تنخواہ قلیل ہے،التفات ہی نہ کرو۔ روزی آدمی کی ،مدرسے کی طرف سے نہیں ہے اﷲ کی طرف سے ہے۔روزی کا سوال اﷲسے کرو ۔الحاح وزاری سے کرو، حالات کے خالق وہی ہیں ۔ نہ حالات سے لڑو ،نہ خالق حالات سے ناراض ہو۔بس ان کی خوشامد کرو۔غیب کی کنجیاں انہیں کے ہاتھوں میں ہیں ،جو بھی حال ہوخندہ پیشانی سے اس کو قبول کرو۔اگر پسند نہ ہو تو انہیں سے فریاد کرو ۔آخر صبر اور رضا بالقضا کی تعلیم کس کے لئے ہے؟تنخواہ کی کمی دیکھتے ہو ،اور اﷲ کی رزاقیت کونہیں دیکھتے، جن کی تنخواہیں زیادہ ہیں ،وہ صرف گننے کیلئے زیادہ ہیں ،کام ان سے اتنا بھی نہیں ہوتا ،