استاذ محترم مدظلہٗ کے ایک ’’فاضل شاگرد‘‘جو ایک مدرسہ میں مدرس تھے، اپنے گھریلو حالات اور معاشی تنگیوں کی وجہ سے حد درجہ پریشان اور آزردہ تھے، ابتدائً توحالات کی دشواریوں کا مقابلہ بڑے صبرو تحمل کے ساتھ کیا ، مگر ناموافق حالات کی مسلسل یورش سے ان کا پیمانۂ صبر ایک بار لبریزہوکرچھلک پڑا !اور نھوں نے نہایت کرب انگیز اور درد ناک خط لکھا،جو ان کے شکست دل کی آواز تھی، یہ تحریر اسی خط کا جواب ہے،جو رضا بالقضا اور اعتماد علی اﷲ کے مضمون پر مشتمل ہے۔
(ضیاء الحق خیرآبادی)
عزیزم! عافاک اﷲ من جمیع البلایا والمصائب
السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہٗ
تمہارا درد انگیز اور کرب خیز خط ملا ، اس کو پڑھ کر میں ہل گیا ،صدموں نے تمہارے دل کو چور کر دیا ہے،یہ خط نہیں شکست دل کی آواز ہے،جس کرب وبے چینی کے حال میں تمہارے قلم سے یہ غم آلود الفاظ ٹپکے ہیں ، اس کا اندازہ کر کے میں بے چین ہو گیا، اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب پاک سید المرسلین ا کے صدقے میں تمہارے مصائب و آلام کا خاتمہ فرمائیں اور سکون قلب و فراغ خاطر نصیب فرمائیں ۔
اب میری ایک بات سنو!حالات سے لڑنا ،ان سے برسر پیکار رہنا،عزم و ہمت اور حوصلہ کی علامت سمجھا جا تا ہے، اور بلند پرواز شاعروں نے اس کے بڑے فضائل بیان کئے ہیں ، لیکن در حقیقت یہ غلط رخ پر آدمی کو دوڑانا اور تھکا تھکا کر اسے مار ڈالنا ہے، اس کے حوصلہ کو توڑ دینا ہے۔حالات کیا ہیں ؟کیا خود سے پیدا ہو تے ہیں ؟کیا یہ حالات اپنے اختیار سے آتے ہیں ؟کیا ان کے اوپر ظالم ہونے کا اطلاق