بھی اس حادثہ کے بعد ملاقات نہیں ہوئی تھی ، نہ آپ کا کوئی خط ملا جس سے تفصیلات کا علم ہوتا ۔حافظ آفتاب سلّمہ کی زبانی ساری باتیں معلوم ہوئیں کہ وہ آپ کی اکیلی ہمشیرہ تھیں ، اور ان کی وفات کی وجہ سے جناب کی طبیعت بہت متاثر ہے ، آپ کے تاثر کو سن کر میرا دل بھر آیا ، آفتاب سلّمہ آپ کی باتیں کررہے تھے اور میرا دل امنڈا چلا آتا تھا ، طبیعت بیقرار تھی ، آنکھیں چھلکنے کے لئے بے تاب تھیں ، کسی طرح طبیعت کو قابو میں رکھا ، میں نے سوچا اور آفتاب سلّمہ نے کہا بھی کہ آپ کے نام خط لکھ دوں ۔ مجھے پہلے ہی لکھنا ہی چاہئے تھا مگر اتنی تاخیر ہوگئی ، اس کی وجہ سے بہت شرمندہ ہوں ۔ میں تو آپ کے تاثرات کو سن کر اتنا بے چین ہوا کہ جی چاہا کہ اسی سفر میں آپ کی خدمت میں حاضری دوں مگر موانع نے اجازت نہ دی ، اب قلم اٹھایا ہے تو سوچتا ہوں کہ کیا لکھوں ؟ آپ سے تعزیت وتسلی کی کوئی بات کروں ، یہ تو میرا منہ نہیں ہے ، حق تعالیٰ کی شانِ رحمت کی معرفت آپ کو مجھ سے بدرجہا زائد حاصل ہے ۔ خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربانی کس کس انداز میں فرماتے ہیں ، یہ آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے ، معلوم ہوا کہ آپ نے دوا علاج کے سلسلے میں اسباب ظاہری کا مکمل انتظام فرمایا تھا مگر حق تعالیٰ کی مشیت غالب آکر رہی ، اس کا راز بھی آپ پر منکشف ہے ، یہ سب کچھ ہے ، مگر دل درد سے بھرا چلا آتا ہے ، اس کا کیا علاج ہے ؟ یہ بھی آپ سے بہتر کون جانتا ہے ؟ خدا تعالیٰ نے آپ کو کتنے دکھے دلوں کا غمخوار ، کتنے کتنے مصیبت زدہ لوگوں کا مرکز امید بنایا ہے پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کے اوپر کوئی ناقابل برداشت درد ڈال دیں ، پھر سوچتا ہوں کہ سورج کو چراغ کیسے دکھاؤں ، بجز اس کے کوئی چارہ نہیں کہ آپ کے غم کو اپنا غم بناکر اپنی تسلی اور تعزیت کے لئے جو کچھ سمجھ میں آتا جائے کہتا چلا جاؤں ، اس کے مخاطب آپ نہیں خود میں ہوں ، کیونکہ میں نے بھی اپنی دو دو بہنیں کھوئی ہیں ،