کرکے خود سب سے چھوٹا بنارہے ، جتنی پستی ہو گی خدا تعالیٰ اسی قدر اس پر نگاہِ رحمت فرمائیں گے ۔ ہر کجا پستی است آب آنجا رود، جہاں پستی ہوتی ، نشیب ہوتا ہے ، پانی وہیں جاتا ہے۔ ٹونٹی سے پانی لینا ہوتو لوٹے کو اس سے نیچا رکھنا ہوگا ، اگر لوٹا اوپر ہوا، تو پانی سے محروم رہے گا ۔ ہمیشہ اپنے عمل کو ، اپنی نیت کو ناقص اور کھوٹا سمجھتے رہنا چاہئے ، یہ کبھی نہ ہوکہ اپنی کسی نیت یا کسی عمل کی اچھائی دل میں بیٹھ جائے اور اس کی وجہ سے خود کو بڑا ، اور دوسروں کو حقیر سمجھنے لگے ، کوئی آدمی ہمیشہ روزہ رکھتا ہو، اور رات بھر نمازیں پڑھتا ہو ، چوبیس گھنٹے ذکراﷲ کے علاوہ کوئی کام اس کو نہ ہو ، اور اگر خدا نخواستہ اس کے دل میں یہ بات جم گئی کہ میں کچھ کررہا ہوں ، اسی وقت وہ حق تعالیٰ کی نگاہِ رحمت سے محروم ہوجائے گا ۔ کرتے رہو، اور قصور کااقراربھی کرتے رہو ، بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی بارگاہ جس قدر عالی ہے ، کوئی آدمی اس کا حق ادا کرہی نہیں سکتا ، جتنی عبادت کوئی کرے گا ،آخر یہ بھی تو اسی کاا حسان ہوگاکہ اس نے توفیق بخشی ، اگر توفیق نہ بخشے تو کوئی آدمی زبان سے اﷲ کانام بھی نہیں لے سکتا۔ پھر بھلا سوچو، کہیں تصور ہوسکتا ہے کہ اس کی بندگی کا حق ادا کیا جاسکے ۔ اس لئے بھائی ! کرتے رہو اور روتے رہو۔ دیکھو حضور پاک ا کی نماز کیسی کچھ ہوتی رہی ہوگی ، حدیث میں نماز کو مومن کی معراج کہاگیا ہے ، پھر حضور اقدس ا کی نماز کس درجہ بلند معراج ہوتی رہی ہوگی ، لیکن نماز کے بعد آپ استغفار پڑھتے تھے ۔ آپ کے سامنے یہ حقیقت بالکل کھلی ہوئی تھی کہ عظمت الٰہی کے شایانِ شان کوئی عبادت ہوہی نہیں سکتی ، اس لئے بجز معافی چاہنے کے اورکوئی چارۂ کار نہیں ہے، جب محبوب رب العالمین ا کا یہ حال ہو تو پھر کسی کے لئے کب جائز ہے کہ اپنے کسی عمل ، کسی حال اور کسی خوبی پر اترائے ، اس سے بہت پرہیز کرنے کی ضرورت ہے ، اپنے کو ہمیشہ سب سے کمتر درجہ کا یقین رکھنا چاہئے تاکہ حق تعالیٰ کی نگاہِ