رحمت پڑتی رہے۔
اور ترکِ غضب یعنی غصے کو چھوڑدینا ، اس کو تو جانتے ہی ہو ، اپنی گناہگاری اور اپنی حقارت کااحساس ہر دم رہے گا تو ان شاء اﷲ غصہ خود بخود بھاگ جائے گا ، اور اگر نہ بھاگے تو اس کے بھگانے کی کوشش میں لگے رہنا چاہئے۔
بہر کیف رضاء الٰہی مطلوب ہے ، جان کی بازی لگاکر اس کو حاصل کرنا ہے ، وہی انسان کامیاب ہے ، جو مرنے سے پہلے اپنے رب کو راضی کرلے۔ بہت ہی عمدہ اور بہت ضروری کام ہے ، اسی کی دھن لگی رہنی چاہئے ۔
بات تو بہت ہے ، لیکن کتنا لکھوں ، اور کتنا تم لوگ پڑھوگے۔ اتنے ہی کو پڑھنے میں کافی دیر لگ جائے گی ۔ ماموں اور ممانی جان سے سلام کہہ دینا ، اب کی بار ایسی غلطی ہوئی کہ ممانی سے ملاقات بھی نہ کرسکا ۔ دن میں تمہارے گھر پہونچنا ہی ہوا نہیں ، اور رات میں موقع ملا نہیں ، ایسے ہی بڑی والدہ سے بھی ملاقات نہ ہوئی ۔ دونوں کی خدمت میں میرا سلام پہونچاؤ ، اور میری جانب سے معافی چاہو، پھر آؤں گا توان شا ء اﷲ تلافی کردوں گا۔ اب افسوس ہورہا ہے ۔ خیر دنیا ایسی ہی جگہ ہے ، کبھی ملاقات ہے ، کبھی جدائی ہے ، کبھی خوشی ہے ، کبھی رنج ہے ، بعد مرنے کے ان شاء اﷲ ہمیشہ ہمیش ملاقات رہے گی ۔ اس دنیا میں ملاقات ہونے نہ ہونے پر زیادہ رنج نہیں کرنا چاہئے ۔ تینوں ماموں اور شفیع الرحمن بھیا کو سلام کہہ دو۔ جی چاہے تو میرا یہ خط اور لوگوں کو بھی سنادو۔ عبد العظیم بھیا سے سلام کے بعد نماز کی تاکید کردینا۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۲۷؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۶ھ
٭٭٭٭٭